دوسروں کو مجرم ٹھہرانا بھی لوگوں کا پسندیدہ شوق ہے اگر خُدا نخواستہ کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو ہر شخص اُس پر فتوئوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے خواہ خود بھی اُسی جرم میں مبتلا کیوں نہ ہو۔ اس سے نفرت اور بغض جنم لیتے ہیں جس سے پیار اور محبت کا رشتہ کمزور ہوتا جاتا ہے ۔ چنانچہ اخوت اور بھائی چارہ کے رشتہ کو قائم اور مضبوط رکھنے کے لئے المسیح فرماتے ہیں’
”…مجرم نہ ٹھہرائو تُم بھی مجرم نہ ٹھہرائے جائو گے۔خلاصی دو تم بھی خلاصی پائو گے…”۔ (لوقا36:6)
”…میں دُنیاکو مجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہوں”(یوحنّا47:12)۔
ایک باریہودی آپ کے پاس ایک ایسی عورت کولے کرآئے جو عین زنا کی حالت میں پکڑی گئی۔یہودیوں نے آپ سے کہا،
”…موسیٰ نے ہم کو حکم دیا کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے۔اُنہوں نے اُس کو آزمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اُس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں ۔ مگر یسوع جھُک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا…(اور)سیدھے ہو کر اُن سے کہاجو تُم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اُس کے پتھر مارے…وہ یہ سُن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے۔اور یسوع اکیلا رہ گیا ۔اور عورت وہیں بیچ میں رہ گئی۔یسوع نے …اُس سے کہااے عورت یہ لوگ کہاں گئے؟کیا کسی نے تُجھ پر حکم نہیں لگایا۔اُس نے کہا اے خُداوند کسی نے نہیں۔یسوع نے کہا میں بھی تُجھ پر حکم نہیں لگاتا۔جا پھر گناہ نہ کرنا”(یوحنّا5:8۔11)۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ المسیح نے فتویٰ بازی اور الزام تراشی کے رویہ کی حوصلہ شکنی کی ہے۔آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ لوگ اس قسم کے اخوت سوز سوچ کو ترک کر کے ایک دوسرے کو بحال کر کے اخوت جیسے مقدس رشتہ کو مضبوط کر نے میں اپنا کردار ادا کریں۔
پھر اِسی طرح پولُس رسول بھی یوں فرماتے ہیں
”اَے بھائیو! اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا بھی جائے تو تُم جو روحانی ہو اُس کو حلم مزاجی سے بحال کرو۔اور اپنا بھی خیال رکھ ۔کہیں تو بھی آزمائش میں نہ پڑجائے”(گلتیوں1:6)۔