عیب جوئی کا مطلب ہے کہ کسی شخص کے نقائص اور کمزوریوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا تاکہ اُس کی بدنامی ہو ۔یہ ایسا دیمک ہے جو دوستی اور اخوت کے رشتہ کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جب کسی شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا کوئی دوست اُس کی عیب جوئی کرتا ہے تواُس کا اپنے اُس دوست سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔چنانچہ المسیح فرماتے ہیں،
”عیب جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے۔کیونکہ جس طرح تُم عیب جوئی کرتے ہواُسی طرح تمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا”(متی1:7۔2)۔
اکثر لوگ دوسروں پر نکتہ چینی تو بڑے شوق سے کرتے ہیں لیکن اپنے عیبوںاور نقائص پر غور نہیں کرتے کہ اُن کی اپنی ذات میں بھی اُسی طرح کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ المسیح اس حوالہ سے بھی یوں فرماتے ہیں،
”تو کیوں اپنے بھائی کے آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟اورجب تیری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو تو اپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہے کہ لا تیری آنکھ میں سے تنکا نکال دوں؟ اے ریاکار پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکے گا ”(متی3:7۔5)۔
چنانچہ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ لوگ اُس کی عزت کریں اور اُس پر اعتماد کریں تو اُس کے لئے لازم ہے کہ وہ بھی دوسروں کی عیب جوئی سے گریز کرے۔کیونکہ اگر کوئی شخص کسی کے عیبوں کو دوسرے کے سامنے اُچھالے گا تو اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔