یسوع مسیح کی موت پر کچھ ایسے مافوق الفطرت واقعات وقوع پذیر ہوئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موت کسی عام انسان کی نہیں بلکہ ایک غیر معمولی ہستی کی تھی۔ ان میں سے ایک غور طلب نشان یہ تھا کہ یسوع مسیح کی موت پر مقدِس کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ سے لے کر نیچے تک دو ٹکرے ہو گیا مقدس سے مراد یہودیوں کی مرکزی عبادت گاہ جس کے تین حصے تھے۔ صحن، پاک مقام اور پاک ترین مقام۔ پاک اور پاک ترین مقام کے درمیان ایک پردہ ہوتا تھا۔ کوئی انسان اس پردے میں سے گُزر کر پاک مقام ترین مقام نہیں جاسکتا تھا کیونکہ یہاں پر خدا کی خاص حضوری ہوتی تھی۔ سردار کاہن سال میں صرف ایک بار یہاں جاتا اور جاکر اپنے اور قوم کے گناہوں کی معافی کے لئے قربانی چڑھایا کرتا تھا۔ گویا یہ پردہ خدا اور انسان کے درمیان جدائی ظاہر کرتا تھا۔ جب یسوع مسیح نے اپنی جان دی تو یہ پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ دراصل پردے کا اوپر سے نیچے تک پھٹنا اس بات کا اظہار تھا کہ خدا نے خود اس جدائی کو ختم کرکے انسان کے ساتھ صلح کرلی ہے۔ یہ یسوع مسیح کی صلیبی موت ہی تھی جس کی باعث جدائی کا یہ پردہ ختم ہوگیا۔
مزید سمجھنے کے لئے درج ذیل انجیلِ مقدس کے حوالے کا مطالعہ کریں۔
اور دوپہر سے لے کر تِیسرے پہر تک تمام مُلک میں اَندھیرا چھایا رہا۔
اور تِیسرے پہر کے قرِیب یِسُوع نے بڑی آواز سے چِلّا کر کہا ایلی ۔ ایلی ۔ لَما شَبقتَنِی؟ یعنی اَے میرے خُدا! اَے میرے خُدا! تُو نے مُجھے کِیُوں چھوڑ دِیا؟
جو وہاں کھڑے تھے اُن میں سے بعض نے سُن کر کہا یہ ایلِیّاہ کو پُکارتا ہے۔
اور فوراً اُن میں سے ایک شَخص دَوڑا اور سپنج لے کر سِرکہ میں ڈُبویا اور سرکنڈے پر رکھ کر اُسے چُسایا۔
مگر باقیوں نے کہا ٹھہر جاؤ۔ دیکھیں تو ایلِیّاہ اُسے بَچانے آتا ہے یا نہِیں۔
یِسُوع نے پھِر بڑی آواز سے چِلّا کر جان دے دی۔
اور مَقدِس کا پردہ اُوپر سے نِیچے تک پھٹ کر دو ٹُکڑے ہوگیا اور زمِین لرزی اور چٹانیں تڑک گئیں۔
اور قَبریں کھُل گئِیں اور بہُت سے جِسم اُن مُقدّسوں کے جو سو گئے تھے جی اُٹھے۔
اور اُس کے جی اُٹھنے کے بعد قَبروں سے نِکل کر مُقدّس شہر میں گئے اور بہُتوں کو دِکھائی دِئے۔
پَس صُوبہ دار اور جو اُس کے ساتھ یِسُوع کی نگہبانی کرتے تھے بھونچال اور تمام ماجرا دیکھ کر بہُت ہی ڈر کر کہنے لگے کہ بیشک یہ خُدا کا بَیٹا تھا۔
(متّی 27 باب 45 تا 54 آیات)
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔