ہم کیوں گناہ گار ہیں (حصہ نمبر-2)

Mark Waseem

مسیحی تعلیم کے مطابق انسان محض اس لئے گناہ گار نہیں کہ وہ گناہ کرتا ہے۔ بلکہ وہ انسان اسلئے گناہ گار ہے کیونکہ اس کی فطرت گناہ آلودہ ہے۔ جس طرح سانپ اگر کسی کو نہ بھی کاٹے پھر بھی اُس کے زہریلے ہونے سے انکار ممکن نہیں۔ اسی طرح اگر کسی انسان سے عملی گناہ سرزد نہیں بھی ہوتا پھر بھی وہ گناہ گار ہے کیونکہ اُس کی فطرت یا باطن گناہ آلودہ ہے۔ انسانوں کی نظر میں گناہ گار وہ جس نے عملی طور پر گناہ کیا ہو۔ لکین خدا کی نظر میں گناہ کی نیت، خواہش یا رجحان رکھنے والا انسان بھی گناہ گار ہی ہے۔ گناہ کی اس خواہش سے کوئی بھی مبرا نہیں۔ خواہ کوئی شخص عملی گناہ کرے یا نہ کرے تاہم اُس میں گناہ کا رجحان ضرور موجود ہے۔

مزید سمجھنے کے لئے درج ذیل کلامِ مقدس کے حوالہ جات کو پڑھیں۔

حضرت سلیمان فرماتے ہیں۔
سب چیزوں میں جو دُنیا میں ہوتی ہیں ایک زبوُنی یہ ہے کہ ایک ہی حادثہ سب گُزرتا ہے۔ وہاں بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھرا ہے اور جب تک وہ جیتے ہیں حماقت اُن کے دل میں رہتی ہے اور اس کے بعد مُردوں میں شامل ہوتے ہیں۔
(واعظ 9 باب 3 آیت)

حضرت داؤد فرماتے ہیں۔
اور اپنے بندہ کو عدالت میں نہ لا۔ کیونکہ تیری نظر میں کوئی آدمی راستباز نہیں ٹھہرسکتا۔
(زبُور 143 باب 2 آیت)

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔