گناہ کا علاج

Mark Waseem

جب تک انسان کی بگڑی ہوئی فطرت کا علاج نہیں ہوتا اور اُسے پاکیزہ فطرت یا نیا دل نہیں ملتا، خدا کے معیار کے مطابق نیک اعمال یا خدا کی شریعت پرعمل ناممکن ہے۔کیونکہ ایسی حالت میں کئے جانے والے نیک اعمال انسان کی دلی خوشی کی بجائے خود غرضی پر مبنی ہوتے ہیں ۔وہ یا توخدا کے عذاب (دوزخ) کے خوف سے یا ثواب یعنی جنت کے لالچ میں نیک اعمال کرتا ہے ۔چنانچہ گناہ آلودہ حالت میں کئے جانے والے نیک اعمال کے بارے میں حضرت یسعیاہ فرماتے ہیں …..”ہماری تمام راستبازی ناپاک لباس کی مانند ہے……“(یسعیاہ 6:64)۔ انسان اپنی کوشش سے اپنی گناہ آلودہ فطرت کو تبدیل نہیں کر سکتا بلکہ یہ خدا ہی کے اختیار میں ہے کہ وہ انسان کے باطن یا دل کو تبدیل کرے اور اُس کی سوچ کو ایک نیا رخ عطاکر دے ۔ حضرت حزقی ایل جن کا زمانہ نبوت تقریباً چھ سو سال قبل ازمسیح ہے ، اُن کے وسیلہ سے خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک خاص پیغام دیا۔ ”مَیں تم کو نیا دل بخشوں گااور نئی روح تمہارے باطن میں ڈالوں گااور تمہارے جسم میں سے سنگین دل کو نکال ڈالوں گا اور گوشتین دل تم کو عنایت کروںگا۔ اور مَیں اپنی روح تمہارے باطن میں ڈالوں گااور تم سے اپنے آئین کی پیروی کراﺅں گا اور تم میرے احکام پر عمل کرو گے اور اُن کو بجا لاﺅ گے“۔(حزقی ایل26:36۔27 ). اِسی طرح حضرت یرمیاہ بھی اس حوالہ سے یوں فرماتے ہیں، ”مَیں اپنی شریعت اُن کے باطن میںرکھوں گا۔اوراُن کے دل پر اُسے لکھوں گا اور مَیں اُن کاخداہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے“(یرمیاہ 33:31)۔ انجیلِ مقدس میں انسان کے سنگین دل یعنی گناہ آلودہ فطرت کی بدولت ظاہر ہونے والے کاموں کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ”اب جسم کے کام تو ظاہر ہیں یعنی حرام کاری،ناپاکی، شہوت پرستی،بت پرستی، جادُوگری، عداوتیں، جھگڑا ، حسد، غُصّہ، تفرقے، جدائیاں، بدعتیں، بغض ،نشہ بازی، ناچ رنگ اوراَور ان کی مانند“(گلتیوں19:5۔21 )۔ چنانچہ جب انسان کی فطرت اور دل نیا ہو جائے گا تو اُس کے کام بھی اس کے مطابق ہو جائیں گے۔نئی اورپاکیزہ فطرت کے کاموں کو روح کے کاموں سے موسوم کیا گیا ہے ‘ جو یوں ہیں، گلتیوں22:5۔23 ”مگر روح کا پھل محبت۔ خوشی۔ اطمینان۔تحمل۔ مہربانی۔ نیکی۔ ایمانداری۔ حِلم۔ پرہیزگاری ہے۔ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہیں“۔