ہم سیکھ چکے ہیں کہ گناہ نے انسان کی فطرت کوبگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔ اس لئے چاہنے کے باوجود بھی انسان گناہ پر غالب نہیں آسکتا تھااس لئے کہ اُس کی فطرت گناہ آلودہ ہو چکی تھی۔ چنانچہ لازم تھا کہ گناہ پر غالب آنے کے لئے انسانی فطرت کے اِس بگاڑ کا علاج کیا جاتا۔ اِس تعلق سے ہم یہ بھی سیکھ چکے ہیں کہ خُدا مستقبل میں انسان کے باطن میں ایک نیا دل اور نئی روح ڈالنے کو تھا۔ اِس الٰہی عمل کے باعث انسانی باطن میں ایک تبدیلی عمل میں آنا تھی جس کے باعث انسان کواس قابل ہوجانا تھا کہ وہ الٰہی مرضی کے مطابق پاکیزہ زندگی بسرکر سکتا۔ کلامِ مقدس یہ بھی بتاتا ہے کہ نئی زندگی کا یہ انعام المسیح کے وسیلہ ملنا تھا۔ اور اس سے پہلے المسیح کو انسان کے گناہ کے کفارہ کے لئے مرنا تھا اور پھر اُسے مرے ہی نہیں رہنا تھا بلکہ اُسے تیسرے دن دوبارہ زندہ ہونا اور زندہ ہونے کے بعد آسمان پر اُٹھایا جانا تھا۔ انسان کو نئے دل اور نئی روح کا انعام المسیح کے کفارہ پر ایمان لانے کے وسیلہ ہی ملنا تھی۔ المسیح کی موت ، دوبارہ زندہ ہونے اور پھر آسمان پر اُٹھایا جانا کوئی حادثاتی باتیں نہیں بلکہ یہ سب کُچھ پہلے سے الٰہی منصوبہ نجات کا حصہ تھیں، اور اس سبق میں ہم نے سیکھا کہ ان باتوں کے عمل میں آنے سے سینکڑوں سال پہلے ہی خُدا تعالیٰ نے اپنے انبیا کی وساطت سے ان باتوں کے پورا ہونے کے بارے میں خبر دی ۔اِس لئے کہ جب یہ سب کُچھ عمل میں آئے تو انسان کو اسے قبول کرنے میں کوئی عذر درپیش نہ ہو۔ یاد رہے کہ یہ ساری باتیں خُدا تعالیٰ کے اُس وعدہ کا حصہ ہیں جو اُس نے ابرہام سے کیا تھا کہ تیری نسل کے وسیلہ سے سب قومیں برکت پائیں گی ۔چنانچہ اِس کورس میں ہم یہ سیکھ چکے ہیں کہ ابرہام سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کیسے اور کس کے وسیلہ سے ہونا تھی۔ آئند ہ کورسز میں ہم یہ سیکھیں گے کہ خُدا کی وعدہ کردہ برکت اقوام عالم کو المسیح کے وسیلہ کیسے حاصل ہوتی ہے ،اور یہ بھی کہ المسیح کی زندگی، موت ، تیسرے روز دوبارہ زندہ ہونے کے بعد آسمان پر اُٹھائے جانے کے بارے میں بیان کردہ انبیا کی پیشین گوئیاں کس طرح پوری ہوتی ہیں۔