گناہ ایک طرح سے قادرِ مطلق خدا کی قدوسیت اور پاکیزگی کے خلاف جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔ کلامِ مقدس میں مرقوم ہے کہ” کِیُونکہ گُناہ کی مزدُوری مَوت ہے مگر خُدا کی بخشِش ہمارے خُداوند مسِیح یِسُوع میں ہمیشہ کی زِندگی ہے۔
(رومیوں 6 باب 23 آیت). خدا تعالیٰ چونکہ عادل ہے لہٰذا اُس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ گناہگار کو سزائے موت دی جائے۔ اگر خدا محض عدل کرتا تو انسان کے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ خدا کی محبت ہے کہ اس نے کفارے کا نظام وضح کیا۔ جس کی بدولت خدا کے عدل کا تقاضا بھی پورا ہوتا ہے اور انسان کو گناہ سے معافی بھی حاصل ہوتی ہے۔
کفارہ ادا کرنے کے لئے جو نظام بنی اسرائیل کو دیا گیا وہ گناہوں کی معافی کا مستقل حل نہ تھا بلکہ یہ آنے والے کامل کفارے کا عکس تھا۔ اس لئے کہ اگر یہ کفارہ جو کاہن ادا کرتا تھا اگر کامل یا مستقل ہوتا تو ہر سال ادا کرنا نہ پڑتا۔ پھر یہ بھی کہ اس کے گزراننے والے کاہن کو پہلے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ کفارہ گزراننے والا خود گناہ سے پاک نہیں ہوتا تھا۔ جو کفارہ کسی گناہ گار شخص کے ہاتھوں ادا کیا جائے اُسے کامل کفارہ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اس کفارہ میں ایک اور قابلِ غور بات یہ تھی کہ اُس میں ذبح کیا جانے والا جانور اپنی خوشی سے کفارہ ادا نہیں کرتا تھا بلکہ اُسے زبردستی ذبح کردیا جاتا تھا۔ حقیقی قربانی یا کفارہ وہ ہی ہوتا ہے جس میں کفارے دینے والا اپنی خوشی اور آزاد مرضی سے کفارہ ادا کرے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔