گناہ سے نہ صرف حضرت آدم و بی بی حوا اور اُن کے خاندان کی زندگی ہی متاثرہوئی بلکہ اُن کی پوری اولاد بھی اس کے مضراثرات سے نہ بچ سکی ۔ حضرت نوح کے زمانہ میں ساری زمین خُدا کی نظر میں ناراست قرار پائی۔ پیدائش 6 : 12 میں لکھا ہے کہ ”اور خدا نے زمین پر نظر کی اور دیکھا کہ وہ ناراست ہوگئی ہے کیونکہ ہر بشر نے زمین پراپنا طریقہ بگاڑ لیا تھا“چنانچہ خُدا نے حضرت نوح سے فرمایا ” اور دیکھ میں خود زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہوں تاکہ ہر بشر کو جس میں زندگی کا دَم ہے دُنیا سے ہلاک کر ڈالوں اورسب جو زمین پر ہیں مر جائیں گے۔“ (پیدائش6 :17)۔ تاہم حضرت نوح کو حکم دیا کہ وہ ایک بڑی سی کشتی بنائیں اور بتائی گئی تعداد کے مطابق سب جانوروں کے جوڑوں اوراپنے خاندان سمیت کشتی میں داخل ہوں۔ جب حضرت نوح اور اُن کا خاندان کشتی میں سوار ہو گیا تو خُدا نے زمین پر طوفان بھیجا جس کے باعث ” ہر جاندار شے جو رُوئے زمین پر تھی مر مٹی۔ کیا انسان کیا حیوان۔ کیا رینگنے والا جاندار کیا ہوا کا پرندہ یہ سب کے سب زمین پر سے مر مٹے۔ فقط ایک نوح باقی بچایا وہ جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے۔“ (پیدائش7 :23) یوں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ گناہ جس کا آغاز دو افراد حضرت آدم اور بی بی حوا سے ہوا، وہ حضرت آدم کے بیٹے قابیل کی بدولت حضرت آدم کے خاندان میں سرایت کر گیا اور یوں آگے بڑھتا ہوا حضرت نوح کے دور تک عالمگیر حیثیت اختیار کر گیا۔ پھر یہ بھی سیکھا کہ گناہ کا نتیجہ ہمیشہ ہی خُدا کے غضب، تباہی، بربادی اور موت ثابت ہوا۔