ابھی تک ہم یہ سیکھ چکے ہیں کہ اِس کائنات کے خالق خُدا تعالیٰ ہیں جنہوں نے اپنے کلام سے سب کُچھ خلق کیا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت میں یہ کائنات خُدا تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہے اِس لئے کہ سب کُچھ خُدا کے کلام کے وسیلے سے معرضِ وجود میں آیا۔ ابھی جو اہم بات ہم سیکھنے کو ہیں وہ یہ ہے کہ خُدا تعالیٰ وَحدہُ لاشریک ہیں اُن کے علاوہ کوئی خُدا نہیں ہے۔ اِس حوالے سے حضرت یسعیاہ کی معرفت خُدا تعالیٰ یوں فرماتے ہیں کہ
”مَیں خداوند سب کا خالق ہوں، مَیں ہی اکیلا آسمان کو تاننے اور زمین کوبچھانے والاہوں کون میرا شریک ہے؟“ (یسعیاہ 44: 24 )۔
اِسی طرح ہم توریت شریف کی پانچویں کتاب اِستِثنا میں خُدا تعالیٰ کا ایک خاص حکم جو اُنہوں نے بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ کے وسیلے دیا تھا، اُس پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل سے اِس حوالہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں،
” سُن اَے اسرائیل! خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خُداوند اپنے خُدا سے محبت رکھ“ (استثنا6: 4-5)۔
چونکہ خُدا تعالیٰ وحدہُ لاشریک ہیں اِس لئے اُن کاسب لوگوں سے ایک ہی تقاضا ہے کہ اُس کے مقابلے میں کسی کو نہ تو خُدا مانیں اور نہ ہی کسی اَور کی عبادت اور پرستش کریں۔ توریت شریف کی دوسری کتاب خروج میں خُدا تعالیٰ بنی اسرائیل کو اِس حوالہ سے یوں فرماتے ہیں،
”خداوند تیرا خدا جو تجھے مُلکِ مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں۔میرےحضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرنا کیونکہ مَیں خُداوند تیرا خُدا غیور خُدا ہوں۔۔۔(خروج .۲:۲-۵)
پھر خروج 23:20 میں مزید فرمایا۔
“تُم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا یعنی چاندی یا سونے کے دیوتا اپنے لئے نہ گھڑ لینا”۔