اگر چہ ابتدا میں نجات دہندہ کے بارے میں خدا تعالیٰ کا وعدہ اتنا واضح نہیں تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام کے وسیلے سے اس وعدہ کو مزید واضح کیا۔ کسی نبی نے یہ بتایا کہ وہ ہستی کس شہر میں آئے گی، کسی نبی نے یہ بتایا کہ وہ ہستی کون سی قوم و قبیلہ اور خاندان سے آئے گی، اس تعلق سے حضرت یسعیاہ نبی جن کا زمانہ خدمت ساتویں صدی قبل از مسیح ہے۔ انہوں نے نجات دہندہ کے بارے میں نہایت صاف انداز میں اُس ہستی کے بارے میں پیش گوئی کی۔
کلامِ مقدس میں مرقوم ہے کہ”لیکن خُداوند آپ تُم کو ایک نِشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کُنواری حامِلہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمّانُوایل رکھّے گی۔”(یسعیاہ 7 باب 14 آیت)۔
اس ہستی کے بارے میں حضرت یسعیاہ نبی نے پہلے ہی سے یہ بھی بتا دِیا کہ وہ کس قسم کی شخصیت کا مالک ہوگا اور اس نے دنیا میں اس ہستی کو آکر کیا کرنا ہوگا۔
کلامِ مقدس میں مرقوم ہے کہ” خُداوند خُدا کی رُوح مُجھ پر ہے کیونکہ اُس نے مُجھے مَسح کِیا تاکہ حلیموں کو خُوش خبری سُناؤُں۔ اُس نے مُجھے بھیجا ہے کہ شِکستہ دِلوں کو تسلّی دُوں۔ قَیدیوں کے لئے رہائی اور اسیروں کے لئے آزادی کا اِعلان کروں۔ تاکہ خُداوند کے سالِ مقبُول کا اور اپنے خُدا کے اِنتقام کے روز کا اِشتہار دُوں اور سب غمگینوں کو دِلاسا دُوں۔”(یسعیاہ61 باب 1 تا 2 آیات)۔
دُنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی اکثریت پسماندہ ہے۔ بہت سے معاشروں میں عورتوں کو مردوں کی نسبت کم تر اور ناقص العقل سمجھا جاتا ہے۔ اِس طرح عورتوں کو وہ حقوق نہیں دِیئے جاتے جو مردوں کو حاصل ہیں۔ غرض ہر معاملے میں عورتوں کو نظر انداز کِیا جاتا ہے۔
برائے غور و خوض
اِس سبق میں ہم نے سیکھا کہ گناہ خواہ مرد کرے یا عورت خدا تعالیٰ کی نظر میں دونوں مجرم ہیں۔اِس لئے حضرت آدم اور بی بی حوا سے سرزد ہونے والے گناہ کے لئے خدا تعالیٰ نے دونوں کوذمہ دار ٹھہرایا اور دونوں کو سزا بھی دی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جس طرح گناہ کی سزا مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے اُسی طرح نجات کی برکت بھی دونوں کے لئے ہے۔
دُعا۔ اَے ہمارے پروردگار!تیرا شکر ہو کہ تُو نے ہمیں ہمیشہ کے لئے ترک نہیں کِیا بلکہ ہمیں ایک اُمید بخشی کہ ہم دُنیا کے نجات دہندہ کو قبول کرکے حقیقی اطمینان اور خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔آمین!
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔