یہ بات تو بڑی خوش آئند ہے کہ انسان کو ایسا دل اور فطرت مل جائے جس کی بدولت نیک کام خود بخود ہی اُس کی زندگی سے صادر ہونا شروع ہو جائیں۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیا دل یا نئی فطرت جسے ”نئی زندگی“ بھی کہا جاتا ہے، انسان کو کیسے ملے گی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے اُنہیں کچھ بھی کر نے کی ضرورت نہیں بلکہ خدا خود ہی مناسب وقت پر یہ نئی فطرت عطاکردے گا۔ اس کے برعکس کلامِ مقدّس یہ فرماتا ہے کہ خدا مستقبل میں ایک ایسی شخصیت کو برپا کرنے کو تھا جسے دُنیا میں آکر انسانی نجات کے لئے ایک خاص کام سرانجام دینا تھا ۔پس جو کوئی اُس شخصیت پر ایمان لائے گا اور اُس کے کئے ہوئے کام کو بھی قبول کرے گا، خدا یہ نیا دل اور نئی فطرت اُسے مفت میں انعام کے طور پر عطا کرے گا۔ حقیقت میں یہ وہی برکت ہے جس کا وعدہ خدا نے حضرت ابرہام سے کیا کہ ”تیری نسل کے وسیلہ سے دُنیا کی سب قومیں برکت پائیں گی“(پیدائش18:22)۔ اور گزشتہ اسباق میں ہم یہ بات سیکھ چکے ہیں کہ حضرت ابرہام کی نسل آنے والی مقدس ہستی جس کے وسیلہ سب اقوام کو برکت ملنا تھی اُسے حضرت داﺅد اور حضرت یسعیاہ ”مسیح “ کہہ کر پکارتے ہیں۔