بائبل مقدّس کے مطابق حضرت آدم سے سرزد ہونے والے گناہ نے انسانی فطرت کو بگاڑ کر رکھ دیا اور یوں ہر انسان اسی بگڑی ہوئی فطرت کے ساتھ پیدا ہونے لگا۔اِسی لئے اُس کا رجحان گناہ کی طرف ہے۔جس طرح سیب کے درخت پر سیب ہی لگتے ہیں اسی طرح گناہ آلودہ فطرت کے ساتھ پیدا ہونے والے انسان سے گناہ ہی سرزد ہوں گے۔ گناہ سے رہائی حاصل کرنے کے لئے انسان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ وہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ وہ گناہ گار ہے،جبکہ خدا کی نظر میں ہر انسان گنہگار ہے۔ طوفانِ نوح کے بعد خدا تعالیٰ نے فرمایا ‘”کہ انسان کے سبب سے میں پھر کبھی زمین پر لعنت نہیں بھیجوں گا کیونکہ انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے“ (پیدائش21:8)۔ زبور 5:51 کے مطابق حضرت داﺅد اس فطری گناہ کا اقرار اس طرح کرتے ہیں کہ”دیکھ! مَیں نے بدی میں صورت پکڑی اور میں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا“ گناہ کی طرف انسان کے فطری جھکاﺅ کے بارے حضرت سلیمان فرماتے ہیں. ”بنی آدم کا دل اُن میں بدی پر بہ شدتِ مائل ہے“(واعظ 11:8)۔