خدا تعالیٰ نے انسان کو نجات دینے کے لئے کفارے کا راستہ کیوں چُنا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم یہ جانیں کہ انسانی نجات کے ضمن میں کوئی خاص طریقہ وضع کرنے کا حق کسے ہے؟
اگر کوئی نہایت ہم کم حثیت شخص کسی با اثر خاندان کے کسی فرد کا قتل کردے تو اُس کے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہوتی ہے کہ اُس کے معافی مانگنے میں مُدعی پارٹی اُس پر ترس کھا کر معاف کردے۔ تاہم یہ صلح یا معافی اُسی وقت ممکن ہے جب مُدعی پارٹی کی طرف سے عائد کردہ شرائط اور طریقہ کار کو مجرم قبول کرنے کے لئے تیار ہو۔
مجرم یہ نہیں کہہ سکتا کہ معافی کے حصول اور صلح کے لئے طریقہ کار وہ ہوگا جو میں تجویز کروں گا۔
اس واقعہ میں معاف کرنے کا طریقہ کار وضع کرنے اور شرائط عائد کرنے کا حق صرف مُدعی پارٹی کو ہے۔
گناہ کرنے سے انسان نے خدا تعالیٰ کے خلاف جرم کیا جس کی سزا موت ہے۔ اگر خدا تعالیٰ عدل کرے تو کوئی انسان بھی نہیں بچ سکتا۔ انسان صرف اُسی صورت میں بچ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے رحم سے اُسے معاف کردے۔ تاہم یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف خدا تعالیٰ کو ہی حاصل ہے کہ انسان کو اپنے رحم سے معاف کرنے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کرے۔ انسان اس بارے میں کوئی اعتراض یا تجویز پیش نہیں کرسکتا۔ بلکہ اُسے شکر گزاری سے اس فیصلہ کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرنا ہے۔
کلامِ الٰہی کے مطابق انسان کو گناہ سے نجات دینے کے لئے خدا تعالیٰ نے جس طریقہ کار کا چناؤ کیا وہ کفارہ ہے۔ اسی بات کو انبیاء کرام نے پیش گوئیوں کے طور پر بار بار دہرایا۔ اور یہی بات سکھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قربانیوں کا نظام دیا۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔