شمالی سلطنت میں یوں تو کئی انبیاء کرام آئے جن میں حضرت ایلیاہ (الیاس) اور حضرت الیشع (الیسع) قابلِ ذکر ہیں ان کے احوال بائبل مُقدّس (1۔ سلاطین 17 ویں باب تا 2۔ سلاطین 13 ویں باب ) میں مذکورہیں۔ ۔تاہم شمالی سلطنت میں آنے والے صاحبِ کتاب انبیاء صرف دو ہی ہیں یعنی حضرت عاموس اور حضرت ہوسیع ، ان دونوں کے نام سے موسوم صحائف بائبل مُقدّس میں شامل ہیں ۔ آئیے اِن بزرگ انبیاء کے پیغام اور احوال پر مختصر نظر ڈالیں۔
حضرت عاموس
آپ یروشلیم کے جنوب میں دس میل کے فاصلہ پرواقع ایک قصبہ تقوع کے ایک چرواہے تھے ۔ آپ نے تقریباً 783 تا 743 ق۔م میں شمالی سلطنت میں نبوتی خدمت سرانجام دی۔ جن دنوں میں آپ نے نبوت کی اُس وقت شمالی سلطنت کی تجارت اسور کی سلطنت کے ساتھ زوروں پر تھی۔ اس تجارتی عروج کے باعث مُلک میں بڑی خوشحالی آ گئی تھی۔ اس خوشحالی کے باعث لوگوں میں کئی معاشرتی برائیاں بھی آگئی تھیں۔ ہر طرف غریبوں کا اِستحصال ہونے لگا۔ انصاف مکمل طور پرناپید ہوگیا۔ رشوت ستانی، ناپ تول میں بددیانتی، بے ثبات چیزوں پر بھروسہ، اپنی طاقت کا گھمنڈ، عیش پرستی اور حرامکاری جیسی برائیاں لوگوں کا معمول بن گئیں تھیں۔ اسی طرح مذہبی لحاظ سے بھی یہ لوگ کراوٹ کا شکار ہو چکے تھے۔ دینداری اور خُدا پرستی محض دکھاؤا بن کر رہ گئی تھی۔ جب کہ اُن کے دل خُدا سے دُور تھے۔ یہاں تک کہ خُداوند کو یوں کہنا پڑا ”میں تمہاری عیدوں کو مکروہ جانتا ہوں اور اُن سے نفرت رکھتا ہوں اور تمہاری مُقدّس محفلوں سے بھی خوش نہ ہوں گا۔ اور اگرچہ تُم میرے حضور سوختنی اور نذر کی قربانیاں گذرانو گے تو بھی میں اُن کو قبول نہ کروں گا اور تمہارے فربہ جانوروں کی شکرانہ کی قربانیوں کو خاطر میں نہ لاﺅں گا“عاموس 21:5-22)۔ اِس صورت حال میں خُداوند تعالٰی بنی اسرائیل سے یوں فرماتے ہیں ”۔ ۔ ۔ تُم میرے طالب ہو اور زندہ رہو“(عاموس4:5)۔ لیکن اگر وہ خُداوند کے طالب نہ ہوں گے تو اُنہیں خُداوند کے عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس تعلق سے یوں لکھا گیا ہے۔ ”۔ ۔ ۔ اَے بنی اسرائیل دیکھو میں تُم پرایک قوم کو چڑھا لاﺅں گا وہ تُم کو حمات کے مدخل سے وادیِ عربہ تک پریشان کرے گی“ (عاموس 14:6)۔ ”تیرے بیٹے اور بیٹیاں تلوار سے مارے جائیں گے ۔ ۔ ۔ اور تو ایک ناپاک مُلک میں مرے گا اوراسرائیل یقیناً اپنے وطن سے اسیر ہو کر جائے گا“ (عاموس17:7)۔