خُدا حقیقت نے پہلے انسان یعنی حضرت آدم اورحوا کو خلق کر کے باغِ عدن میں رکھا۔ اور اُنہیں فرمایا کہ وہ باغِ عدن کی باغبانی اور نگہبانی کریں۔ اور ساتھ ہی اُنہیں ایک مختصر سی شریعت بھی عطا فرمائی۔ چنانچہ توریت شریف (پیدایش2 : 16-17) میں یوں مرقوم ہے۔ ”اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا“ ۔اَب ہوا یوں کہ ابلیس جو کہ خُدا اور انسان دونوں کا دشمن ہے سانپ کی صورت میں حوا کے پاس آیا اور فریب اور دھوکہ سے حضرت حوا کواس بات پر اُبھارنے لگا کہ وہ شریعت ِ الٰہی کی نافرمانی کر کے خُدا تعالیٰ کے خلاف گناہ کرے۔ اِس حوالہ سے توریت شریف میں یوں بیان ہے،”اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھاچالاک تھا اور اُس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدانے کہاہے کہ باغ کےکسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟“ ”عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاﺅ گے“”تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاﺅ گے تمہاری آنکھیں کھُل جائیں گی اور تم خد ا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاﺅ گے۔ ” عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت (کا پھل) کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھایا“۔ (پیدایش 3 : 1-6)