فروغِ احترامِ انسانیت کی کوئی بھی کاوش اُس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک لوگ اندر اور باہر سے ایک نہیں ہوتے۔ اکثر لوگ ایک جانب انسانیت کی بھلائی کا دکھاوا کرتے ہیں اور اور دوسری جانب وہی لوگ انسانی تباہی کے منصوبے بھی بناتے ہیں ۔ ادھرسلامتی اور دعائے خیرکے مبارک کلمات کی ادائیگی سے آپ کے لئے خیرخواہی کی دعا کی جاتی ہے اور پھر اگلے ہی لمحے آپ سے وہ سلوک ہوتا ہے جس کی آپ سپنے میں بھی توقع نہیں کرتے۔آپ کے خیر خواہ ہی آپ کے دشمن نکلتے ہیں۔ یہی ہمارا دوہرا معیار ہے جو حقیقت میں انسانیت کا دُشمن ہے۔جب تک ہم اپنے دوہرے معیار کو ترک نہیں کرتے معاشرے میں امن و سکون کی توقع کرنا عبث ہے۔ المسیح نے ریاکاری اور دوہرے معیار کی ہمیشہ مذمت کی ہے ۔چنانچہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور ترقی اسی اصول میں پنہاں ہیں کہ لوگ اپنا دُہر ا معیار ترک کر ایک دوسرے سے مخلص ہوں۔اور مخلص ہونے کا مطلب ظاہر اور باطن کا ایک ہونا ہے۔یہ نہیں کہ آپ انسانیت کی بھلائی کی تبلیغ بھی کرتے جائیں اور دوسری جانب تعصب کو ہوا دینے والے خیالات کی تشہیر بھی کرتے رہیں۔ المسیح اس حوالہ سے فرماتے ہیں. “کوئی اچھا درخت نہیں جو بُرا پھل لائے اور نہ کوئی بُرا درخت ہے جو اچھا پھل لائے۔ہر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔کیونکہ جھاڑیوں سے انجیر نہیں توڑتے اور نہ جھڑبیری سے انگور۔اچھا آدمی اپنے دل کے اچھے خزانہ سے اچھی چیزیں نکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانے سے بُری چیزیں نکالتا ہے۔کیونکہ جو دل میں بھرا ہے۔وہی اُس کے مُنہ پر آتا ہے”(انجیلِ مقدس” لوقا 43:6۔45)