اگر کوئی شخص غلطی سے کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے کسی دوسرے انسان کو نقصان پہنچے یا رنج پہنچے تو یہ غلطی یا خطا یقینا دو اشخاص میں پائے جانے والے اخوت کے رشتہ کو کمزور کرنے کا باعث بنے گی۔تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس اخوت کے رشتہ کو کس طرح ٹوٹنے سے بچا سکتے ہیں یا زیادہ مضبوط کر سکتے ہیں۔
اِس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ہر اِنسان اِس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ اِنسان خطا کا پتلا ہے، دوسروں کو معاف کرنے کے لئے تیار رہے ۔تاہم یہ ایک مشکل کام ہے کوئی شخص بھی آسانی سے دوسرے کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔اگر کسی شخص سے ہمارا کوئی نقصان ہو جاتا ہے تو ہم اُس سے دُگنا حاصل کئے بغیر اُس کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے ۔
تاہم المسیح کی تعلیم یہ نہیں بلکہ آپ نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ وہ فراخ دلی سے دوسروں کو معاف کرنے کے لئے تیار رہیںاس لئے کہ آپ کو انسانی اخوت نہایت ہی عزیز تھی اس لئے آپ نے ہمیشہ معافی اور برداشت کا درس دیا تاکہ انسانی بھائی چارے کا بندھن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے بچ سکے۔آپ فرماتے ہیں۔
”اِس لئے کہ اگر تُم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا۔اور اگر تُم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہاراباپ بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا”(متی14:6۔15)۔
ایک بار آپ کے ایک شاگرد پطرس نے آپ سے پوچھا،
”… اَے خُداوند اگر میرا بھائی میرا گناہ کرتا رہے تو کتنی دفعہ اُسے معاف کروںکیا سات بار تک؟یسوع نے اُس سے کہا میں تُجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستربار تک”(متی21:18۔22)۔
پھر ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ”…اگر تیرا بھائی گناہ کرے تو اُسے ملامت کر ۔اگر توبہ کرے تو اُسے معاف کر ۔ اور اگر وہ ایک دن میں سات دفعہ تیرا گناہ کرے اور ساتوں دفعہ تیرے پاس پھر آکر کہے کہ توبہ کرتا ہوں تو اُسے معاف کر ”(لوقا3:17۔4)۔
المسیح کی محبت اور معافی کے جذبہ کی وسعت صرف بھائی تک محدودنہیں بلکہ آپ نے تو اپنے پیروکاروں کو یہاں تک سکھایا کہ اپنے دشمنوں سے بھی پیا ر کرو۔
چنانچہ آپ فرماتے ہیں!
”لیکن میں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو۔تاکہ تُم اپنے (خُدا )باپ کے جو آسمان پر ہے(روحانی) بیٹے ٹھہرو۔کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور رستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تُم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے ۔کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟اور اگر تُم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے ۔پس چاہئے کہ تُم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے”(متی44:5۔48)۔
چنانچہ یہاں ہم غور کر سکتے ہیں کہ المسیح کو اخوتِ اِنسانی اور انسانی بھائی چارہ کا بندھن کس قدر عزیز تھا۔آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپس میں پیار، محبت، معافی اور برداشت کی فضا قائم کر کے اِنسانی بھائی چارہ کو تقویت عطا کریں ۔کیونکہ یہی وہ عناصر ہیں جو انسانوں کے درمیان بھائی چارے اور اخوت کے رشتہ کو مضبو ط کر سکتے ہیں۔
اِس لئے اگر ہم اپنے خاندان،محلہ، شہر اور ملک و قوم میں اخوت اور بھائی چارہ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں معافی اور برداشت کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔