اقوام عالم کی برکات کیلئے خُدا تعالٰی جس ہستی کو حضرت ابرہام کی نسل سے بھیجنے کو تھے۔ یہ وہی ہستی ہے جس کے بارے میں خُدا تعالٰی نے باغِ عدن میں خبردی کہ عورت کی نسل کے طور پر آنے والا ابلیس کے سر کو کُچلے گا۔
اب اُسی کے بارے حضرت موسیٰ سے یوں فرماتے ہیں، ( اے بنی اسرائیل!) ” خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اُس کی سننا۔ یہ تیری اُس درخواست کے مطابق ہو گا جو تُو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہو تاکہ مَیں مر نہ جاﺅں اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں مَیں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اوراپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ مَیں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا“ (استثنا 15:18-18)۔
کوہِ حورب پر بنی اسرائیل نے خُدا تعالٰی کا جلال دیکھنے کی خواہش کی لیکن جب خُدا نے اپنے جلوہ کی جھلک دکھائی تو وہ اسے برداشت نہ کر سکے تو موسیٰ سے کہا کہ ” تو ہی ہم سے باتیں کیا کر اور ہم سُن لیا کریں گے۔ لیکن خُدا ہم سے باتیں نہ کرے تا نہ ہو کہ ہم مر جائیں “ (خروج 19:20)۔
حضرت موسیٰ کی پیشین گوئی میں درج ذیل نکات نہایت ہی قابلِ غور ہیں۔
ایک ۔ وہ ہستی بنی اسرائیل میں سے آئے گی۔
دو۔ اس کے مُنہ میں خُدا کا کلام ہو گا یعنی وہ جو کچھ فرمائے گا وہ خُدا کا کلام ہوگا ۔
تین ۔ وہ ہستی اپنی روحانی صفات کے حوالہ سے حضرت موسیٰ کی مانند ہوگی۔
چار ۔ اس موعودہ مُقدس ہستی کو بنی اسرائیل کی اُس درخواست کے جواب میں آنا تھا جو اُنہوں نے اُس وقت کی جب اُنہوں نے حورب پہاڑ پر خدا کو دیکھنے کی خواہش کی، لیکن وہ اُس کا جلوہ برداشت نہ کر سکے۔ گویا اس نبی کو خدا کے نمائندہ کے طور پر ظہور پذیر ہونا تھا تاکہ اُس کے وسیلہ سے لوگ خدا کا دیدار بھی کر لیں اور ہلاک بھی نہ ہوں۔ گویا اِس ہستی کو مظہرِ خُدا کے طور پر آنا تھا۔