خدا کی بادشاہی کیسے بڑھتی ہے (حصہ نمبر۔ 1)

Mark Waseem

خدا تعالیٰ کی خواہش ہے کہ اُس کی بادشاہی میں زیادہ سے زیادہ لوگ شامل ہوکر اُس کی رفاقت سے لطف اندوز ہوں۔ تاہم وہ کسی کو مجبور نہیں کرنا چاہتا ہے کہ لوگ اپنی خواہش اور آزاد مرضی سے اُس میں شامل ہوں۔ اس لئے وہ اپنے خادموں کے وسیلے سے بادشاہی کی خوشخبری اُن تک پہنچاتا ہے۔ خدا کے کلام کے بارے میں جس طرح کا کسی کا ردعمل ہوتا ہے اُسی قدر وہ اجر پاتا ہے۔

مزید سمجھنے کے لئے درج ذیل انجیلِ مقدس کے حوالے کا مطالعہ کریں۔

پھِر جب بڑی بھِیڑ جمع ہُوئی اور ہر شہر کے لوگ اُس کے پاس چلے آتے تھے اُس نے تَمثِیل میں کہا کہ۔
ایک بونے والا اپنا بِیج بونے نِکلا اور بوتے وقت کُچھ راہ کے کِنارے گِرا اور رَوندا گیا اور ہوا کے پرِندوں نے اُسے چُگ لِیا۔
اور کُچھ چٹان پر گِرا اور اُگ کر سُوکھ گیا اِس لِئے کے اُس کو تری نہ پہُنچی۔
اور کُچھ جھاڑیوں میں گِرا اور جھاڑیوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اُسے دبا لِیا۔
اور کُچھ اچھّی زمِین میں گِرا اور اُگ کر سَو گُنا پھَل لایا۔ یہ کہہ کر اُس نے پُکارا۔ جِس کے سُننے کے کان ہوں وہ سُن لے!۔
اُس کے شاگِردوں نے اُس سے پُوچھا کہ یہ تَمثِیل کیا ہے؟
اُس نے کہا تُم کو خُدا کی بادشاہی کے بھیدوں کی سَمَجھ دی گئی ہے مگر اَوروں کو تَمثِیلوں میں سُنایا جاتا ہے تاکہ دیکھتے ہُوئے نہ دیکھیں اور سُنتے ہُوئے نہ سَمَجھیں۔
وہ تَمثِیل یہ ہے کہ بِیج خُدا کا کلام ہے۔
راہ کے کِنارے کے وہ ہیں جِنہوں نے سُنا۔ پھِر اِبلِیس آ کر کلام کو اُن کے دِل سے چھِین لے جاتا ہے۔ اَیسا نہ ہوکہ اِیمان لاکر نِجات پائیں۔
اور چٹان پر کے وہ ہیں جو سُن کر کلام کو خُوشی سے قُبُول کرلیتے ہیں لیکن جڑ نہِیں رکھتے مگر کُچھ عرصہ تک اِیمان رکھ کر آزمایش کے وقت پھِر جاتے ہیں۔
اور جو جھاڑیوں میں پڑا اُس سے وہ لوگ مُراد ہیں جِنہوں نے سُنا لیکن ہوتے ہوتے اِس زِندگی کی فِکروں اور دَولت اور عَیش و عشرت میں پھنس جاتے ہیں اور اُن کا پھَل پکتا نہِیں۔
مگر اَچھّی زمِین کے وہ ہیں جو کلام کو سُن کر عُمدہ اور نیکدِل میں سنبھالے رہتے اور صبر سے پھَل لاتے ہیں۔
(لُوقا 8 باب 4 تا 15 آیات)

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔