خدا تعالیٰ پاک ہے اور اس کی پاکیزگی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بھی پاک ہو۔ چنانچہ توارۃ شریف میں مرقوم ہے کہ” پھر خداوند نے موسی سے کہا۔
بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تم پاک رہو کیونکہ میں جو خداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں۔ (احبار 19 باب 2 آیت)
جب کے انسان کے بارے میں حضرت یسعیاہ نبی فرماتے ہیں کہ” اور ہم سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راست بازی ناپاک لباس کی مانند ہے اور ہم سب پتے کی طرح کملا جاتے ہیں اور ہماری بدکرداری آندھی کی مانند ہم کو اُڑلے جاتی ہے۔ (یسعیاہ 64 باب 6 آیت)۔
جب تک انسان پاک نہیں ہے ہوتا وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ رفاقت نہیں رکھ سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کا طرح خدا تعالیٰ کے حضور پاک ٹھہر سکتا ہے؟
کلامِ مقدس کے مطابق کوئی بھی انسان خود اپنے آپ کو پاک نہیں کرسکتا۔ حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ” کون کہہ سکتا ہے کہ میں نے اپنے دِل کو صاف کر لیا ہے اور میں اپنے گناہ سے پاک ہوگیا ہوں؟ (اِمثال 20 باب 9 آیت)۔
اگر کوئی بچہ کیچڑ میں لت پت اپنی ماں کے پاس آئے تو وہ اُس وقت تک اُسے گود میں نہیں اٹھا سکتی جب تک اُسے اس گندگی سے صاف نہ کرلے۔ اگر وہ ماں اس کو گندگی سمیت اٹھا لے گی تو اس کے اپنے کپڑے خراب ہو جائیں گے۔ یہاں قابلِ قبول بات یہ ہے کہ بچہ اپنے آپ کو خود صاف نہیں کرسکتا اس لئے یہ کام کسی دوسرے کو کرنا پڑتا ہے۔
جس طرح بچے کی آلودگی سے پاک کرنے کے لئے ماں کو اپنے ہاتھوں کو آلودہ کرنا پڑتا ہے اُسی طرح انسان کو گناہوں سے پاک کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ خود قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس لئے کہ کوئی انسان بھی خود اپنے آپ کو گناہ کی آلودگی سے پاک نہیں کرسکتا۔ لہٰذا یہ کام خدا تعالیٰ کو خود کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنا اکلوتا بیٹا یسوع مسیح بخش دیا کہ وہ انسان کے گناہوں کے لئے اپنی جان فدیہ دے۔ تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے اپنے گناہوں سے معافی اور حقیقی پاکیزگی حاصل کرے۔ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ نے اپنی خود مختار مرضی سے کیا۔ کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔