اسی دوران مصر کے بادشاہ نے دوعجیب خواب دیکھے جن کی تعبیر کوئی بھی نہ کرسکا۔ حضرت یوسف اُس وقت تک بادشاہ کے دو (2) نوکروں کے خوابوں کی ٹھیک ٹھیک تعبیر کرچکے تھے۔ ان میں سے ایک کی درخواست پر حضرت یوسف کو قید خانے سے بلایا گیا۔ چنانچہ آپ نے بتایا کہ ان خوابوں کے وسیلہ سے خدا نے بادشاہ کو آگاہ کیا ہے کہ آنے والے سات سالوں میں فصل اور دیگر پیداوار اچھی ہوگی لیکن اس کے بعد کے سات برس بڑے سخت قحط اور خشک سالی کے ہوں گے۔ خواب کی تعبیر کے باعث فرعون کی نظر میں آپ کوبڑی مقبولیّت حاصل ہوئی۔ اس بارے میں توریت شریف (پیدایش 43:41) میں یوں مرقوم ہے‘” اور اُس (فرعون) نے اُسے (یعنی یُوسف کو) سارے ملکِ مصرکا حاکم بنا دیا“ بحیثیت حاکمِ اعلٰی حضرت یوسف نے اچھی فصل والے سات سالوں میں قحط کےلئے نہایت کثرت سے اناج جمع کرلیا۔ اور جب قحط شروع ہوگیا تو گرد و نواح سے لوگ آپ کے پاس آنے لگے ۔ چنانچہ جو بھی آپ کے پاس آتا آپ بلا امتیازِ مذہب وعقیدہ ہر ایک کو اناج عطا کرتے۔ قحط کے ایام میں حضرت یوسف کے باپ حضرت یعقوب (اسرائیل) اور اُن کے بیٹوں کو بھی اس کال کی وجہ سے مصیبت اُٹھانا پڑی۔ وہ مِصرکے شمال مشرق میں رہتے تھے۔ وہ بھی غلّہ حاصل کرنے کے لئے مصرآئے۔ اگرچہ حضرت یوسف کے بھائی اُن سے خوف زدہ تھے کہ اب کہیں وہ اُن سے اُس بدی کا بدلہ نہ لیں جو اُنہوں نے اُن (یعنی حضرت یوسف) سے کی تھی تاہم آپ نے اُن سے بدلہ لینے کی بجائے اُن سے بھلائی کی ۔ آپ نے اپنے بھائیوں سے فرمایا‘ ”تم نے تو مجھ سے بدی کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن خدا نے اُسی سے نیکی کا قصد کیا تاکہ بہت سے لوگوں کی جان بچائے چنانچہ آج کے دن ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس لئے تم مت ڈرو۔ مَیں تمہاری اور تمہارے بال بچوں کی پرورش کرتا رہوں گا۔ یوں اُس نے اپنی ملائم باتوں سے اُن کی خاطر جمع کی“ ۔ (پیدایش 20:50-21)