حضرت ہوسیع نے شمالی سلطنت کے بادشاہ یربعام دوم (793۔753ق۔م) کے دورِ حکومت میں (بنی اسرائیل کی) شمالی سلطنت کے خلاف نبوت کی۔ حضرت ہوسیع کی خاندانی زندگی کی مثال کی مدد سے خدا نے بنی اسرائیل اور اپنے تعلق کو بیان کیا۔ حضرت ہوسیع کی بیوی ایک بے وفا عورت تھی، جس کی وجہ سے اُنہیں بڑے کرب سے گزرنا پڑا۔ بیوی کی تمام تر بے وفائی کے باوجود اُن کی محبت میں کوئی کمی نہ آئی بلکہ اُن کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ وہ راہِ راست پر آ جائے۔ حضرت ہوسیع کے صحیفہ میں بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل اور خدا کے تعلقات بھی اِسی قسم کے ہیں۔ خدا نے ہمیشہ بنی اسرائیل قوم سے اپنی محبت کا اظہار کیا لیکن وہ ہمیشہ بے وفا ہی رہی ۔ وہ خدا کی بجائے غیر معبودوں کے پاس جاتی رہی ۔ تاہم خدا بار بار اپنی اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ بنی اسرائیل اپنی روش سے باز آجائیں ۔ ہوسیع نبی فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی متواتر سرکشی کے باعث خُدا اُن کی عدالت کرے گا اورسامریہ یعنی اسرائیل کی شمالی سلطنت تباہ ہو جائیگی اور لوگ تلوار کا لقمہ بن جائیں گے۔ تاہم خُدا اُن کو ہمیشہ کے لئے ترک نہ کرے گا بلکہ تائب لوگوں کو اپنی محبت کے باعث بحال کرے گا۔ آپ فرماتے ہیں۔ ”وہ دو روز کے بعد ہم کو حیاتِ تازہ بخشے گا اور تیسرے روز اُٹھا کھڑا کرے گا اور ہم اُس کے حضور زندگی بسر کریں گے“ (ہوسیع2:6) ۔ اِس آیتِ مقدسہ میں بھی دُہرا مفہوم پایا جاتا ہے ایک جانب یہ بنی اسرائیلی کی بحالی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور دوسری جانب المسیح کے بارے ایک پیشین گوئی بھی ہے کہ وہ اپنی موت کے تیسرے روز دوبارہ زندہ ہو ں گے۔