اب حضرت ابراہیم کی محبت کا مرکز صرف حضرت اضحاق ہی تھے جو الٰہی وعدہ کے مطابق وراثت کے لحاظ سے آپ کے اکلوتے فرزند تھے ۔ اُن کے بارے میں بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا ۔ ” ۔ ۔ ۔ تُو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تُوپیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جومَیں تجھے بتاﺅں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا“ (پیدایش2:22). حضرت ابراہیم اس آزمائش میں سے کس طرح سرخرو ہوئے؟ توریت شریف میں یوں مرقوم ہے۔ ” اور (ابرہام اور اضحاق) اُس جگہ پہنچے جو خدا نے بتائی تھی۔ وہاں ابرہام نے قربان گاہ بنائی اور اُس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اُسے قربان گاہ پر لکڑیوں کےاُوپر رکھا اور ابرہام نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے“(پیدایش09:22-10) ۔ ”تب خداوند کے فرشتہ نے اُسے آسمان سے پکارا کہ اے ابرہام اے ابرہام ! اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔ پھر اُس نے کہا کہ تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اُس سے کچھ کرکیونکہ میں اب جان گیا کہ تو خدا سے ڈرتا ہے اس لئے کہ تُو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا“(پیدایش11:22-12) ۔اس کے بعد ” ابرہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ تب ابرہام نے جا کر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا“ چنانچہ” ابرہام نے اُس مقام کا نام یہوواہ یری رکھا چنانچہ آج تک یہ کہاوت ہے کہ خُداوند کے پہاڑ پر مہیا کیا جائے گا“ (پیدایش13:22-14) ۔