کسی بھی اِنسان کے ساتھ ہمارے پیار، محبت اور بھائی بندی کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ہم کس قدر خدمت اور ایثار کے جذبہ سے معمور ہو کر اُس کے لئے خوشی ،مسرت اور برکت کا وسیلہ بننے کے لئے اپنے آپ کوپیش کر سکتے ہیں۔
یہی وہ عناصر ہیں جو اخوت اور بھائی چارے کے رشتہ کو مضبوط کرتے ہیں۔جب لوگ خدمت اور ایثار کے جذبہ سے سرشار ہو کر انسانیت کی ترقی اور بھلائی کے لئے کام کریں گے تو ہمارا پورا معاشرہ خوشی اور مسرت سے جھوم اُٹھے گا اور یہ دُنیا جنت بن جائے گی۔
چنانچہ المسیح اپنا نمونہ پیش کرتے ہوئے اس حوالہ سے یوں نصیحت فرماتے ہیں۔
”… جو تُم میں بڑا ہو نا چاہے وہ تمہارا خادم بنے اور جو تُم میں اوّل ہونا چاہے وہ تمہارا غلام بنے۔ چنانچہ ابنِ آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے فدیہ میںدے”(متی36:20۔38)۔
اِسی طرح ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا !
”… غیر قوموں کے بادشاہ اُن پر حکومت چلاتے ہیںاور جو اُن پر اختیار رکھتے ہیں خُداوند ِ نعمت کہلاتے ہیں۔مگر تُم ایسے نہ ہونابلکہ جوتُم میں بڑا ہے وہ چھوٹے کی مانند اور جو سردار ہے وہ خِدمت کرنے والے کی مانند بنے۔کیونکہ بڑا کون ہے وہ جو کھانا کھانے بیٹھا یا وہ جو خدمت کرتا ہے؟کیا وہ نہیں جو کھانا کھانے بیٹھا ہے؟لیکن میں تمہارے درمیان خِدمت کرنے والے کی مانند ہوں”(لوقا25:22۔27)
المسیح نے اپنی پوری زندگی اِنسانیت کی خدمت کے لئے صرف کردی۔آپ ہمیشہ بغیر آرام کئے شہر شہر اور گائوں گائوں پھرتے رہے تاکہ لوگوں کو خُدا کا کلام سکھائیں اور اُنہیں بیماریوں اور دُکھوں سے رہائی دے کر اُن کی خدمت کریں۔آپ ہمیشہ اپنے آپ کو یسعیاہ نبی کی اِس نبوت کا مصداق اور تکمیل قرار دیتے تھے،
”خُداوند کا روح مُجھ پر ہے اس لئے کہ اُس نے مُجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کے لئے مسح کیا ۔اُس نے مُجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سُنائوں۔کُچلے ہوئوں کو آزاد کروں ”(لوقا18:4)۔
چنانچہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے پیروکار بھی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر پوری انسانیت کے لئے برکت کا وسیلہ بنیں۔ فلپیوں4:2 کے مطابق آپ کی انہی باتوں کی ترجمانی کرتے ہوئے پولُس رسول فرماتے ہیں کہ ”ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظررکھے” ۔
جب ہم خدمت اور ایثار کی بات کرتے ہیںتو یہ خدمت کا جذبہ سطحی نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیں دل سے لوگوں کے جذبات اور ضرویات کا خیال رکھنا ہے۔اگر ہماری کسی عادت ‘ پسند یا ناپسند سے ہمارے کسی بھائی کو رنج پہنچتا ہے تو ہمیں اپنے اُس بھائی کی خاطر اپنے جذبات کو قربان کرنا ہے۔چنانچہ رومیوں 15:14 کے مطابق پولُس رسول فرماتے ہیں
”اگرتیرے بھائی کو تیرے کھانے سے رنج پہنچتا ہے تو پھر تُو محبت کے قاعدہ پرنہیں چلتا . .. ” ۔
اِس کا مطلب ہے کہ اگر ہمارے کسی کھانے کی وجہ سے ہمارے بھائی کو رنج پہنچتا ہے تو ہمیں اُس کھانے سے گریز کرنا چاہئے ۔چنانچہ خدمت اور ایثار کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ہر لحاظ سے محبت کی روح سے ہر ایک کو اپنا بھائی سمجھتے ہوئے اپنے سارے وسائل اور جذبات کو بروئے کار لا کر اُس کے لئے برکت کا وسیلہ بنیں۔اورہماری زندگی کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے ہر عمل اور کام سے دوسرے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔