ج۔ گناہوں سے معافی کی شرط

Mark Waseem

مختلف مذاہب میں گناہوں کی معافی کے لئے مختلف عمل کئے جاتے ہیں۔کُچھ لوگ صدقہ دیتے ہیں، روزے رکھتے ہیں ‘ خیرات کرتے ہیں’چلّے کرتے ہیں تاہم المسیح کے نزدیک گناہوں کی معافی دوسروں کو معاف کرنے کے ساتھ مشروط ہے۔ آپ فرماتے ہیں- “اس لئے کہ اگر تُم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا اور اگر تُم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا”(متی 14:6۔15)- اِس بات کی وضاحت کیلئے آپ ایک تمثیل یوں بیان کرتے ہیں- “پس آسمان کی بادشاہی اُس بادشاہ کی مانند ہے جس نے اپنے نوکروں سے حساب لینا چاہا۔ اور جب حساب لینے لگا تو اُس کے سامنے ایک قرض دار حاضر کیا گیا جس پر اُس کے دس ہزار توڑے آتے تھے مگر چونکہ اُس کے پاس ادا کرنے کو کُچھ نہ تھا اس لئے اُس کے مالک نے حکم دیا کہ یہ اور اُس کی بیوی بچے اور جو کُچھ اُس کا ہے سب بیچا جائے اور قرض وصول کر لیا جائے۔پس نوکر نے گر کر اُسے سجدہ کیا کہا اے خُداوند مُجھے مہلت دے۔میں تیرا سارا قرض واپس کروں گا۔اُس نوکر کے مالک نے ترس کھا کر اُسے چھوڑ دیا اور اُس کا قرض بخش دیا ۔ جب وہ نوکر باہر نکلا تو اُس کے ہم خدمتوں میں سے ایک اُس کو ملا جس پر اُس کے سو دینار آتے تھے ۔اُس نے اُس کو پکڑ کر اُس کا گلا گھونٹا اور کہا جو میرا آتا ہے ادا کردے۔ پس اُس کے ہم خدمت نے اُس کے سامنے گر کر اُس کی منت کی اورکہا مُجھے مہلت دے۔میں تُجھے ادا کردوں گا۔اُس نے نہ مانا بلکہ جا کر اُسے قید خانہ میں ڈال دیا کہ جب تک قرض ادا نہ کرے قید رہے۔ پس اُس کے ہمخدمت یہ حال دیکھ کر بہت غمگین ہوئے اور آکر اپنے مالک کو جو کُچھ ہوا تھا سب سُنا دیا۔اس پر اُس کے مالک نے اُس کو پاس بلا کر اُس سے کہا اے شریر نوکر ! میں نے وہ سارا قرض تُجھے اس لئے بخش دیاکہ تو نے میری منت کی تھی۔کیا تُجھے لازم نہ تھاکہ جیسا میں نے تُجھ پر رحم کیا تو بھی اپنے ہم خدمت پر رحم کرتا؟ اور اُس کے مالک نے خفا ہو کر اُس کو جلادوں کے حوالہ کیا کہ جب تک تمام قرض ادا نہ کردے قید رہے۔میرا آسمانی باپ بھی تمہارے ساتھ اسی طرح کرے گااگر تُم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کو اپنے دل سے معاف نہ کرے-متی23:19۔35)۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دوسروں کو معاف کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔اگر ہم دُوسروں کو معاف نہیں کریں گے تو ہمیں بھی گناہوں کی معافی کی توقع نہیں کرنی چاہئے ۔