اخوت ِ اِنسانی کے جذبہ کے فروغ کا تیسرا اہم مقصد معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہے۔کوئی شخص بھی اپنے بھائی سے برائی نہیں کر سکتا نہ ہی اُسے دُکھ میں دیکھ سکتاہے ۔ اِس میں شک نہیں کئی بار بھائی بھی اپنے سگے بھائیوں سے ایسا سلوک کرتے ہیں جس کی توقع غیروں سے بھی نہیں کی جاتی ۔اصل بات یہ ہے کہ جب تک کسی شخص میں برادرانہ محبت زندہ رہتی ہے وہ اپنے بھائی سے زیادتی نہیں کرتا لیکن جب اُس کی خود غرضی ‘لالچ اور ہوس اُس پر غالب آکر اُس برادرانہ جذبہ کو موت کی نیند سلادیتا ہے پھر ہی وہ اپنے بھائی سے برائی کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔ اور اُس وقت وہ انسان نہیں بلکہ حیوان بن جاتا ہے۔
کلامِ مقدّس میں ہم پڑھتے ہیں کہ قائن نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کر دیا ۔جب قائن نے ایسا کیا تو اُس وقت وہ انسانیت کے جذبہ سے عاری ہو چکا تھا۔
اِس حوالہ سے کلامِ مقدس میں یوں مرقوم ہے
”اِسی سے خُدا کے فرزند اور ابلیس کے فرزند ظاہر ہوتے ہیںجو کوئی راستبازی کے کام نہیں کرتا وہ خُدا سے نہیں اور وہ بھی نہیںجو اپنے بھائی سے محبت نہیں رکھتا۔کیونکہ جو پیغام تُم نے شروع سے سُنا وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔اور قائن کی مانند نہ بنیںجو اُس شریر سے تھا اور جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا ۔ اوراُس نے کس واسطے اُسے قتل کیااِس واسطے کہ اُس کے کام برُے تھے اور اُس کے بھائی کے کام راستی کے تھے”(1۔یوحنا10:3۔12)۔
پھر اِسی طرح مزید لکھا ہے،
”ہم جانتے ہیں کہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گئے کیونکہ ہم بھائیوں سے محبت رکھتے ہیںجو محبت نہیں رکھتا وہ موت کی حالت میں رہتا ہے۔جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے اور تُم جانتے ہو کہ کسی خونی میں ہمیشہ کی زندگی موجود نہیں رہتی”۔(1۔یوحنّا 14:3۔15)
”جس کسی کے پاس دُنیا کا مال ہواور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اُس میںخُدا کی محبت کیونکر قائم رہ سکتی ہے۔ اَے بچو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اورسچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں”(1۔یوحنّا17:3۔18)۔
چنانچہ جب ہم میں سے ہر شخص دوسرے لوگوں کو اپنا بھائی بہن سمجھے گا تو یقینا وہ اُس سے برائی کرنے سے گریز کرے گا۔ وہ دوسروں کو دُکھ دینے کے بارے نہیں سوچے گا بلکہ اُس کی خوشیوں اور آرام و سکون میں اضافہ کے لئے فکر مند رہے گا۔