اپنے گناہوں سے توبہ کرنا خدا تعالیٰ سے میل ملاپ کی طرف پہلا قدم ہے آخری منزل نہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے توبہ کرلی ہے بس اب معاملہ صاف ہوگیا ہے۔ توبہ کا مطلب ہے اپنے ماضی کے گناہوں سے پشیمان ہوکر مستقبل میں گناہ نہ کرنے کا ارادہ کرنا۔ توبہ نہایت ہی قابلِ تعریف عمل ہے۔ تاہم توبہ گناہوں کی معافی کی ضمانت مہیا نہیں کرتی۔ اگر کوئی شخص قتل کرکے عدالت سے کہتا ہے کہ میں اپنے اس فعل پر شرمندہ ہوں اور اب وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی بھی ایسا جرم نہیں کروں گا۔ تو کیا عدالت اُس شخص کی توبہ قبول کرکے اس کی سزا معاف کردے گی؟ ہرگز نہیں۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اُس کے جرم کی سزا ملے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ جو سب سے اعلیٰ عادل ہے اُس سے ہم کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ وہ عدل کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر کسی گناہ گار کو معاف کردے
پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ رحیم ہے اس لئے اُس کی ذات سے بعید ہے کہ وہ توبہ کرنے پر کسی گناہ گار کو معاف نہ کرے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر خدا تعالیٰ رحیم اور عادل بھی ہے اور اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ گناہ گار کو سزا ملے۔
انجیلِ مقدس کے مطابق خدا تعالیٰ صادق القول اور لاتبدیل ہے۔ وہ اپنی صفحات کا انکار نہیں کرسکتا۔ چنانچہ انجیلِ مقدس میں یو لکھا ہے کہ۔۔۔
اگر ہم بے وفا ہو جائیں گے تَو بھی وہ وفادار رہے گا کِیُونکہ وہ آپ اپنا اِنکار نہِیں کر سکتا۔
(2-تیمِتھُیس 2 باب 13 آیت)
وہ نہ تو عادل ہونے کی بنا پر اپنے رحم کی صفت کو ترک کرتا ہے اور نہ رحیم ہونے کی وجہ سے اپنے عدل کو پس پشت ڈالتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ جب وہ رحم کرے تو اُس کے عادل ہونے صفت بھی متاثر نہ ہو۔
سوچنے کی بات
اس سبق میں ہم نے سیکھا ہے کہ انسان اپنی کوشش سے خدا تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے اور گناہوں سے نجات پانے کے سلسلے میں مکمل طور پر بے بس ہے۔ تاہم خوشی کی بات ہے کہ جو کام انسان کے لئے ناممکن ہے وہ خدا تعالیٰ کے لئے ممکن ہے۔ اگر اس مشکل اور مایوسی میں آپکی مدد کے لئے اپنا دستِ شفقت آپکی طرف بڑھائے تو آپکا ردعمل کیا ہوگا؟
دعا۔ اے خداوند کریم۔ مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں تاکہ نجات پاؤں۔ آمین
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔