بعض لوگ گناہوں سے نجات اور قُربتِ الٰہی کے حصول کے لئے مختلف قسم کی جسمانی ریاضت یا چلہ کشی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جسم کو دکھ دینے سے گناہ آلودہ فطرت کی تبدیلی اور گناہ سے نجات ممکن ہے۔ چناچہ اس خیال کے حامی کئی طرح سے اپنے جسم کو اذیت دیتے ہیں۔ بعض لوگ دنیا سے منہ موڑ کر کسی جنگل یا ویرانے میں گوشہ نشینی کر لیتے ہیں۔
جسمانی ریاضت اور گوشہ نشینی سے گناہوں میں کمی تو ہوسکتی ہے لیکن اُس شخص کا باطن یا فطرت کامل طور پر تبدیل نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی الہامی کتاب حصولِ نجات کے اس طریقے کی تائید نہیں کرتی۔ بلکہ انجیلِ مقدس میں تو اس کے برعکس یوں لکھا ہے کہ
اِن باتوں میں اپنی اِیجاد کی ہُوئی عِبادت اور خاکساری اور جِسمانی رِیاضت کے اِعتبار سے حِکمت کی صُورت تو ہے مگر جِسمانی خُواہِشوں کے روکنے میں اِن سے کُچھ فائِدہ نہِیں ہوتا۔
(کُلسّیوں 2 باب 23 آیت)
انسانی جسم کی نشوونما اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کا مختلف جڑی بوٹیوں، پھلوں اور اجناس کو تخلیق کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ انسانی جسم نشوونما پائے۔ لکین اگر کوئی انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اس جسم کو اذیت دے کر تباہ کرتا ہے تو یہ خدا تعالیٰ کی مرضی کی مخالفت کے مترادف ہے۔ اس عمل سے خدا تعالیٰ کی قربت کی بجائے انسان خدا تعالیٰ سے دور چلا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا پیرے کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جواب ہاں یا نہیں میں دیں۔