فروغ احترامِ انسانی کا دوسرا اہم مقصد انسانوں کے مابین جذبۂ ہمدردی و باہمی تعاون کی ترویج ہے۔ خُدا نے انسان کواس انداز میں خلق کیا ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروںکی مدد اور تعاون کا محتاج ہوتا ہے ۔ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے والدین کی توجہ اور مدد کا محتاج ہوتا ہے۔خاندانی معاملات میں خاوند کو بیوی کی مدد اور بیوی کو خاوند کا ساتھ درکار ہوتا ہے۔توریت شریف میں مرقوم ہے کہ خداوند خدانے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اورانسان کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاںرکھا ابھی تک آدم کی مانند کوئی دوسرا انسان نہ تھا۔ “اور خُداوند خُدا نے کہا کہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیںمیں اُس کے لئے ایک مدد گار اُس کی مانند بنائوں گا”(پیدایش18:2) اور خداوند خدانے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سوگیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اُس کی جگہ گوشت بھر دیا۔اورخداوند خدا اُس پسلی سے جو اُس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اُسے آدم کے پاس لایا۔اور آدم نے کہا کہ یہ تو اب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس لئے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی ہے۔اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گااور وہ ایک تن ہونگے ”( پیدائش21:2۔24)۔ مذکورہ آیت ِمقدسہ میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ خُدا تعالیٰ نے حضرت حوا کو حضرت آدم کی مدد گار کے طور پر خلق کیا ۔پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خُدا تعالیٰ نے اُنہیں حضرت آدم کی پسلی سے خلق کیا ۔خُدا تعالیٰ نے یہ سب کُچھ اسی لئے کیا کہ حضرت حوا کو ہمیشہ یہ بات یاد رہے کہ اُنہیں حضرت آدم کی مدد کے لئے ہمیشہ اُن کے پہلو بہ پہلو دستیاب رہنا ہے۔ اِسی طرح حضرت آدم کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا تھا کہ حضرت حوا نہ تو اُن کی حکمران ہیں اور نہ ہی لونڈی بلکہ اُن کے بدن کا حصہ ہوتے ہوئے اُن کی مدد گار ہیں۔جب خُدا تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ وہ دونوں ایک بدن ہوں گے تو اس کا مطلب ہے کہ اُنہیں باہمی تکمیل کے لئے اپنے تمام معاملاتِ زندگی میں ایک دوسرے کے ہم آہنگ اور معاون ہونا ہے۔ جیسے خاندان کے قیام و بقا کے لئے میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ایسے ہی ایک وسیع خاندان یعنی معاشرہ کا حصہ ہوتے ہوئے سب انسان باہمی ترقی و بقا کے لئے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ باہمی ترقی اُسی صورت میں ممکن ہے جب سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے لئے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریںگے۔چنانچہ انسانوں کا باہمی تعاون اُن کی ترقی اور بڑھوتی کا ضامن ہے۔ ایک بار ایک عالم ِشرع نے المسیح سے پوچھا کہ ” میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پائوں؟ ”اس کے جواب میں آپ نے اُس سے پوچھا کہ کہ توریت میں کیا لکھا ہے؟ تُو کس طرح پڑھتا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا – “خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ”(لوقا 27:10)۔ المسیح نے فرمایا ” تو نے ٹھیک جواب دیا یہی کر تو جئے گا”۔ مگر اُس نے اپنے آپ کو راستباز ٹھہرانے کی غرض سے کہا کہ میرا پڑوسی کون ہے؟ اِس کے جواب میں المسیح نے اُسے ایک تمثیل سُنائی’ ”ایک آدمی یروشلیم سے یریحو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈاکوئوں میں گھر گیا۔اُنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لئے اور مار ا بھی اور ادھمُؤا چھوڑ کر چلے گئے۔اتفاقاً ایک کاہن اُسی راہ سے جا رہاتھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلاگیا۔اسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نکلااور اُسے دیکھ کر اُس نے ترس کھایا اور اُس کے پاس آ کر اُس کے زخموں کو تیل اور مے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر سرائے میں لے گیااور اُس کی خبر گیری کی۔دوسرے دن دو دینار نکال کر بھٹیارے کو دئے اور کہا اس کی خبر گیری کرنا اور جو کُچھ اس سے زیادہ خرچ ہو گا میں پھر آ کر تُجھے ادا کر دوں گا”۔ المسیح نے پھر اُس سے پوچھا کہ ان تینوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکوئوں میں گھر گیا تھا تیری دانست میں کون پڑوسی ٹھہرا؟ اُس نے کہا ”وہ جس نے اُس پر رحم کیا” ۔ یسوع نے اُس سے کہا ”جا تُو بھی ایسا ہی کر”۔اِس تمثیل میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دو مذہبی رہنمائوں نے توزخمی شخص کی کوئی پروانہ کی۔شاید اُنہیں اپنی مذہبی ذمہ داریوں کی زیادہ فکر تھی ۔شائد وہ سوچتے ہوں کہ اگر وہ اس زخمی شخص کی مدد میں لگ گئے تو اُنہیں(خُدا کے گھر) ہیکل پہنچنے میں دیر ہو جائے اور اُن کی کئی ذمہ داریا ں متاثر ہوجائیں۔اس لئے اُنہوں نے اُس زخمی کو وقت دینا مناسب نہ سمجھا۔ جب کہ دوسری جانب سامری ہے۔ اُس زمانے میں سامری نہایت اچھوت اور قابل نفرت سمجھے جاتے تھے، یہودی اُنہیں کافر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ سامری کبھی بھی خُدا کی حضوری میں نہیں جاسکتے ۔چنانچہ یہاں ایک سامری ہی ہے جس نے ترس کھا کر اُس زخمی شخص کی مدد کی اور اُس کی مرہم پٹی کی اور محفوظ مقام پر پہنچا کر اُس کا علاج کروایا ۔یہاں قابل غور بات یہ ہے المسیح نے یہودی مذہبی رہنمائوں کی قطعاً تعریف نہیں کی کہ اُنہوں نے اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو ترجیح دی ہے۔بلکہ آپ نے اُن کی بجائے اُس شخص کی تعریف کی جو لوگوں کی نظر میں نہایت مردود، ناپاک اور قابلِ نفرت اور کافر سمجھا جاتا تھا۔ آپ نے نہ صرف اُس کے رویہ کی تعریف کی بلکہ اُس کے اس عمل کو قابل تقلید بھی قرار دیا کہ “جا تو بھی ایسا ہی کر” چنانچہ خُدا تعالیٰ کی نظر میں قابلِ قدر اور قابل ِ تعریف انسان وہ ہے جو انسانیت کی خدمت کے حوالہ سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اُس کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب اور عقیدہ سے کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس کوئی مذہبی رہنما خواہ کتنا ہی پرہیزگار اور عابد کیوں نہ ہو اگر اُس کا دل انسانیت کے لئے محبت اور ترس سے خالی ہو تو خُدا کے ہاں اُس کی کُچھ قدر نہیں۔