جس طرح ہماری کوئی عبادت انسانیت کی خدمت کے بغیر قابل ِ قبول نہیں اسی طرح برکاتِ الٰہی کا حصول بھی انسانیت کی بھلائی کے بغیر ناممکن ہے۔ جس قدر ہم انسانیت کی بھلائی اور تعمیر و ترقی کا عملی مظاہرہ کریں گے اُسی قدر ہم الٰہی برکات سے محظوظ ہوں گے۔ المسیح نے ہمیشہ یہ تعلیم دی کہ اگر ہم خُدا سے برکات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اپنے ہم جنس انسانوں کی تعمیرو ترقی اور بھلائی کے لئے فکر کرنا ہوگی۔ آپ فرماتے ہیں “…دیا کرو تمہیں بھی دیا جائے گا۔۔۔”(لوقا36:6) اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ہم خُدا تعالیٰ سے برکت چاہتے ہیں تو اس کی بنیادی کلید یہی ہے کہ پہلے ہم خود دوسروں کو دینے کے لئے تیار ہوں۔ اگر ہم دوسروں کو دیں گے تو اس کے بدلہ میں خُدا تعالیٰ ہمیں بھی کئی برکات عطا کر ے گا۔ اِس سے متعلقہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس حوالہ سے جو کُچھ بھی کرنا ہے وہ ہر طرح کے لالچ اور ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر کرنا ہے ۔اس حوالہ سے آپ یوں فرماتے ہیں- “جو کوئی تُجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تُجھ سے قرض چاہے اُس سے مُنہ نہ موڑ” متی42:6)۔ “اور اگر تُم اُن کو ہی قرض دو جن سے وصول ہونے کی اُمید رکھتے ہو تو تمہارا کیااحسان ہے؟گناہگار بھی گناہ گاروں کو قرض دیتے ہیں تاکہ پورا وصول کریں-لوقا34:6)۔ اِسی طرح آپ اس کی مزید وضاحت کُچھ اس طرح کرتے ہیں، “جب تو دن یا رات کا کھانا تیار کرے تو اپنے دوستوں یا بھائیوں یا رشتہ داروں یا دولت مند پڑوسیوں کو نہ بلا تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی تُجھے بلائیں اور تیرا بدلہ ہو جائے۔ بلکہ جب تو ضیافت کرے تو غریبوں لُنجوں لنگڑوں اندھوں کو بلااور تُجھ پر برکت ہو گی۔ کیونکہ اُن کے پاس تُجھے بدلہ دینے کو کُچھ نہیں ۔۔۔”(لوقا 12:14۔15)۔ اِن ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم ہر طرح کے ذاتی مفاد اور خود غرضی سے بالا تر ہو کر محض انسانیت کے ناتے غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد ، خدمت اور بھلائی کریں گے تو خُدا اس کے بدلہ میں اپنی برکات ہم پر نازل فرمائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام تر الٰہی برکات کا حصول انسانیت کی خدمت سے مشروط ہے۔