ب۔باہمی تعمیر و ترقی کا جذبہ

Mark Waseem

اخوتِ انسانی کا ایک اور اہم تقاضہ یہ ہے کہ سب انسان ایک دوسرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔اور اپنے وسائل اور نعمتوں میں دوسروں کو شریک کر کے اُن کے لئے باعثِ برکت بنیں۔اور اگر کوئی ضرورت مند ہو تو اُس کی ضرورت پوری کریں۔
اِس حوالہ سے متی42:5 کے مطابق المسیح یوں فرماتے ہیں،
”جو کوئی تُجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تُجھ سے قرض چاہے اُس سے مُنہ نہ موڑ” اِسی طرح لوقا30:6 کے مطابق ایک اور موقع پر آپ یوں فرماتے ہیں،
”جو کوئی تُجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تیرا مال لے لے اُس سے طلب نہ کر”۔
اِسی طرح آپ کے رسولوں اور شاگردوں نے آپ کی انہی باتوں کی مزید تشریح کرتے ہوئے بڑے واضح انداز میں لوگوں کو سکھایا کہ ہم کس طرح ایک دوسرے کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
پولُس رسول اس حوالہ سے یوںفرماتے ہیں۔
”کوئی اپنی بہتری نہ ڈھونڈے بلکہ دوسرے کی”(1۔کرنتھیوں24:10)۔
”تُم ایک دوسرے کا باراُٹھائو اور یوں مسیح کی شریعت کو پورا کرو”(گلتیوں2:6)۔
”پس تُم ایک دوسرے کو تسلّی دو اور ایکدوسرے کی ترقی کا باعث بنو”(1۔تھسلنیکیوں11:5)۔
”ہم میں ہر شخص اپنے پڑوسی کو اُس کی بہتری کے واسطے خوش کر ے تاکہ اُس کی ترقی ہو” (رومیوں2:15)۔
اِن آیاتِ مقدّسہ سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ المسیح اور آپ کے رسول اور شاگرد بڑے واضح انداز میں بیان کرتے ہیں کہ المسیح کے پیروکاروں کو اپنے ہر طرح کے وسائل کو بروئے کا ر لا کر دوسروں کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
آپ نے اپنے شاگردوں کو نہ صرف یہ تعلیم دی کہ وہ دوسروں کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کریں بلکہ اس کے ساتھ ایسے لوگوں کو بڑی سخت ملامت کی جو دوسروں کی ترقی میں رکاوٹ اور تباہی کاسبب بنتے ہیں۔اِس حوالہ سے آپ فرماتے ہیں!
”ٹھوکروں کے سبب سے دُنیا پر افسوس ہے کیونکہ ٹھوکروں کاہونا ضرور ہے لیکن اُس آدمی پر افسوس ہے جس کے باعث سے ٹھوکر لگے”(متی7:18).
اور اسی طرح دوسروں کے نقصان اور ٹھوکر کا باعث بننے والے کے بارے یوں فرماتے ہیں،
”ان چھوٹوں میں سے ایک کو ٹھوکر کھلانے کی بہ نسبت اُس شخص کے لئے یہ بہتر ہوتا کہ چکی کا پاٹ اُس کے گلے میں لٹکایا جاتا اوروہ سمندر میں پھینکا جاتا ”(لوقا2:17).
آپ نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو یہی سکھایا کہ اُنہیں دوسرے کے لئے صرف اور صرف برکت کا باعث بننا ہے ۔ایک بار جب سامریوں نے المسیح اور اُن کے حواریوں کو اپنے گائوں سے نکال دیا تو المسیح کے شاگردوں نے آپ سے کہا کہ اے خُداوند کیا تو چاہتا ہے کہ ہم حُکم دیں کہ آسمان سے آگ نازل ہو کر اُنہیں بھسم کردے ۔المسیح نے اُنہیں جھڑکااور فرمایا کہ”…تُم نہیں جانتے کہ تُم کیسی روح کے ہو۔کیونکہ ابنِ آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ”(لوقا56:9).
چنانچہ المسیح چاہتے ہیں کہ سب لوگ ایک دوسرے کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بننے کی بجائے ایک دوسرے کی ترقی، بحالی اور برکت کا وسیلہ بنیں۔ اُن کی موجودگی دوسروں کے لئے خوشی ، مسرت اور تسلی کا سبب ہونی چاہئے۔ چنانچہ المسیح کے حقیقی پیروکار وہی ہیں جو دوسروں کے لئے خوشی، برکت اور تسلی کا باعث بنتے ہیں۔