کفارے دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بے عیب ہو۔ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ قربانی کا جانور بے عیب ہونا چاہیے۔ توارۃ شریف میں لکھا ہے کہ”۔ اگر اُس کا چڑھاوا گائے بیل کی سوختنی قُربانی ہوتو وہ بے عیب نرکر لاکر اُسے خیمہ اجتماع کے دروازے پر چڑھائے تاکہ وہ خُود خُداوند کے حضور مقبول ٹھہرے ۔
اور وہ سوختنی قُربانی کے جانور کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے تب وہ اُس کی طرف سے مقبول ہوگا تاکہ اُس کے لئے کفارا ہو ۔
اور وہ اُس بچھڑے کوخُداوند کے حضور ذبح کرے اور ہارون کے بیٹے جو کاہن ہیں خون کو لاکر اُسے اُس مذبح پر گرداگرد چھڑکیں جو خیمہ اجتماع کے دروازہ پر ہے ۔
تب وہ اس سوختنی قُربانی کے جانور کی کھال کھینچے اور اُس کے غضو عُضوکو کاٹ کر جداجدا کرے ۔
پھر ہارُون کاہن کے بیٹے مذبح پر آگ رکھیں اور آگ پر لکڑیاں ترتیب سے چُن دیں ۔
اورہارُون کے بیٹے جو کاہن ہیں اُس کے اعضاکو اور سراورچربی کو اُن لکڑیوں پر جو مذبح کی آگ پر ہونگی ترتیب سے رکھ دیں ۔
لیکن وہ اُس کی انتڑیوں اور پایوں کو پانی سے دھولے تب کاہن سب کو مذبح پر جلائے کہ وہ سوختنی قُربانی یعنی خُداوند کے لئے راحت انگیز خوشبو کی آتشین قُربانی ہو ۔
اور اگر اُس کا چڑھاوار یوڑیں سے بھیڑ یا بکر ی کی سوختنی قُربانی ہو تو وہ بے عیب نرکو لائے ۔(احبار 1 باب 3 تا 10 آیات)
اسی طرح گزشتہ اسباق میں ہم یہ بھی سیکھ چکے ہیں کہ انسان کا بدل انسان ہی ہے نہ کوئی جانور۔ اس لئے انسان کا کفارہ بھی کوئی انسان ہی دے سکتا ہے نہ کوئی جانور۔ تاہم خدا تعالیٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کا فدیہ دینے والا ہر طرح کے گناہ سے پاک ہونا چاہیے۔ اس اصول کے مطابق کوئی گناہ گار کسی دوسرے گناہ گار کو نہیں بچا سکتا۔ انجیلِ مقدس میں یسوع مسیح فرماتے ہیں کہ” کیا اَندھے کو اَندھا راہ دِکھا سکتا ہے؟ کیا دونوں گڑھے میں نہ گِریں گے؟
(لُوقا 6 باب 39 آیت)
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔