بنی اسرائیل کی کم اعتقادی اور اِس کا نتیجہ

Mark Waseem


توریت شریف کی چوتھی کتاب ” گنتی“ کے 13 ویں اور 14 ویں ابواب کے مطابق جب بنی اسرائیل ملکِ موعود کی سرحد پر پہنچے توحضرت موسیٰ نے بارہ آدمی ملکِ کنعان کے حالات دریافت کرنے کو بھیجے۔ ان میں سے دس (10) نے آکر خبردی کہ وہاں واقعی دودھ اور شہد تو بہتا ہے، لیکن وہاں کے لوگ بڑے قد آور اور جابر ہیں، لہٰذا ہمارے لئے اُس مُلک پر قبضہ کرنا بہت مشکل ہے۔
اُن کی مایوس کن خبرسن کر لوگوں نے حضرت موسیٰ اور خدا کے خلاف بڑبڑانا شروع کر دیا کہ خدا کیوں ہمیں ملکِ مصر سے نکال لایا۔ اِس باغیانہ روش کے باعث خدا نے پوری قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم حضرت موسیٰ کی شفاعت کے باعث صرف وہی ہلاک ہوئے جنہوں نے قوم کو مایوس کن خبر دی ۔البتہ باقی قوم کو ایک اورسزا سُنائی کہ ”تمہاری لاشیں اسی بیابان میں پڑی رہیں گی اور تمہاری ساری تعداد میں سے یعنی بیس (20) برس سے لے کر اُس سے اُوپر اُوپر کی عمر کے تم سب جتنے گنے گئے اور مجھ پر شکایت کرتے رہے۔
ان میں سے کوئی اُس ملک میں جس کی بابت میں نے قسم کھائی تھی کہ تم کو وہاں بساﺅں گا جانے نہ پائے گا ِسوا یفُنہّ کے بیٹے کالب اور نُون کے بیٹے یشوع کے“ (گنتی 14: 29-30)۔ خبر لانے والوں میں دو اَور بھی تھے جن کا نام یشوع اورکالب تھا۔ اُن کی رپورٹ سے خدا پر اُن کا بھروسا ظاہر ہوتا ہے، جس کے باعث خدا نے اُنہیں زِندہ رکھا اور ملکِ موعود میں جانے کی خوش خبری بھی دی۔ اُنہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ” اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اُس مُلک میں پہنچائے گا اور وہی مُلک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ہم کو دے گا“ (گنتی8:14) ۔