ایک مسئلہ

Mark Waseem

کلامِ مقدس کے مطابق خدا تعالیٰ عادل ہے۔ اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ مجرم کو پوری پوری سزا ملے۔
حضرت داؤد نبی فرماتے ہیں کہ” بادل اور تاریکی اُسکے اِردگرد ہیں۔ صداقت اور عدل اُسکے تخت کی بنیاد ہیں۔
آگ اُسکے آگے آگے چلتی ہے۔ اور چاروں طرف اُسکے مُخالفوں کو بھسم کر دیتی ہے۔ (زبور 97 باب 2 تا 3 آیات)۔
انسان گناہ گار ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی عدالت میں مجرم ہے اور اس کی سزا موت ہے۔ چنانچہ اگر خدا تعالیٰ عدل کرے تو کوئی بھی بچ سکتا ہے۔ حضرت داؤد اس بارے میں یوں فرماتے ہیں کہ” اور اپنے بندہ کو عدالت میں نہ لا۔ کیونکہ تیری نظر میں کوئی آدمی راستباز نہیں ٹھہرسکتا۔
(زبُور 143 باب 2 آیت)
کلامِ مقدس یہ بیان کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسان سے محبت رکھتا ہے۔ اس لئے وہ اس کی صورت اور شبیہ پر خلق ہوا۔ خدا تعالیٰ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اُس کی شبیہ اور صورت برباد نہ ہو بلکہ ہمیشہ تک قائم رہے۔ کلامِ مقدس میں مرقوم ہے کہ” اور خُدا نے انسان کو اپنی صور ت پر پیدا کیا ۔ خُدا کی صورت پر اُسکو پیدا کیا ۔ نر و ناری اُنکو پیدا کیا۔
خُدا نے اُنکو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معُمورو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اِختیار رکھو ۔
(پیَدایش 1 باب 27 تا 28 آیات)۔
اگر خدا تعالیٰ عدل کرتا تو بھی کوئی بھی انسان نہیں بچ سکتا تھا۔ کیونکہ انجیلِ مقدس میں مرقوم ہے کہ” اِس لِئے کے سب نے گُناہ کِیا اور خُدا کے جلال سے محرُوم ہیں۔(رومیوں 3 باب 23 آیت)۔
انسان صرف اسی صورت میں بچ سکتا ہے تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے رحم سے اُسے معاف کر دیتا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر خدا تعالیٰ عدل کرکے سب انسانوں کو برباد کر دیتا تو اُس کی محبت اور رحم کرنے کی صفت متاثر ہوتی کیونکہ اس کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان برباد ہونے کی بجائے ہمیشہ قائم رہے۔
اسی طرح اگر خدا تعالیٰ اپنی محبت کی بنا پر اپنے رحم سے انسان کو معاف کر دیتا تو انسان بچ سکتا تھا۔ لکین اس طرح اُس کا عدل قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ خدا تعالیٰ کبھی بھی اپنی ایک صفت کو قائم رکھ کر دوسری کو ترک نہیں کرتا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح عدل اور محبت جیسی دو متضاد صفات کو ایک ہی وقت میں قائم رکھتے ہوئے دونوں کے تقاضے پورے کئے جاتے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔