کلامِ الٰہی اس بات کا شاہد ہے کہ انسان خُدا تعالیٰ کی مرضی اور معیار کے مطابق زندگی بسر کرنے میں ناکام رہا جس کے باعث وہ الٰہی رفاقت سے محروم ہو گیا۔ اور یہ بھی کہ ایک انسان کی زندگی سے شروع ہونے والے گناہ نے پوری نسل ِ انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
حضرت نوح کے زمانہ میں بدی یہاں تک بڑھ گئی کہ ساری زمین خُدا کی نظر میں ناراست قرار پائی۔ اس حوالہ سے پیدا یش 12:6میں لکھا ہے کہ ”اور خدا نے زمین پر نظر کی اور دیکھا کہ وہ ناراست ہوگئی ہے کیونکہ ہر بشر نے زمین پراپنا طریقہ بگاڑ لیاتھا“یہ انسان کا گناہ ہی تھا جس کے باعث خُدا تعالیٰ نے طوفان کے ذریعہ ساری مخلوق کو تباہ کر دیا ۔
گناہ کی اِس عالمگیری کا اظہار زبور نویس حضرت داﺅ د یوں بیان کرتے ہیں۔”خُدا نے آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کی تاکہ دیکھے کہ کوئی دانشمند۔ کوئی خُدا کا طالب ہے یا نہیں۔وہ سب کے سب پھر گئے وہ باہم نجس ہوگئے کوئی نیکو کار نہیں ایک بھی نہیں“(زبور3:2،53)۔پھر آپ مزید فرماتے ہیں ”اپنے بندہ کو عدالت میں نہ لا۔کیونکہ تیری نظر میں کوئی آدمی راستباز نہیں ٹھہر سکتا“(زبور2:143)
اسی طرح حضرت سلیمان بھی اس حقیقت کی یوں تائید کرتے ہیں: ”کون کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے اپنے دل کو صاف کر لیا ہے۔ اور مَیں اپنے گناہ سے پاک ہو گیا ہوں؟“(امثال9:20)۔ گویا کلامِ الٰہی کے مطابق گناہ ایک عالمگیر حقیقت ہے اور کوئی بھی اِس کے اثر سے بَری نہیں۔ اسی طرح دُنیا میں عدالتوں۔ پولیس۔افواج اور جرائم کی روک تھام کے دیگر اداروں کا وجود اس بات کا ایک اور زندہ ثبوت ہے۔