جوں جوں وقت گزرتا گیا اِنسان کا اِنسانی دُشمن رویہ اِس قدر شدید ہوتا گیا کہ اِنسان اپنے ہی ہم جنس اِنسانوں کے خون کا پیا سا ہوگیا۔اور پھر اِنسان اِنسان ہی سے خوف کھانے لگا۔
اِس صورتِ حال کی تصویر کشی ایک زبور شریف میں یوں کی گئی ہے،
”شریر اپنی نفسانی خواہش پر فخر کرتا ہے
اور لالچی خُداوند کو ترک کرتا
بلکہ اُس کی اہانت کرتا ہے
اُس کا مُنہ لعنت و دغا اور ظُلم سے پُر ہے
شرارت اور بدی اُس کی زبان پر ہیں
وہ دیہات کی کمین گاہوں میں بیٹھتا
وہ پوشیدہ مقاموں میں بے گناہ کو قتل کرتا ہے
اُس کی آنکھیں بے کس کی گھات میں لگی رہتی ہیں
وہ پوشیدہ مقام میں شیرِ ببر کی طرح دبک کر بیٹھتا ہے
وہ غریب کے پکڑنے کو گھات لگائے رہتا ہے
وہ غریب کو اپنے جال میں پھنسا کر پکڑ لیتا ہے(زبور 10: 7,3-9)
اِسی طرح حضرت یسعیاہ نبی ایسے لوگوں کے بارے یوں بیان کرتے ہیں،
”تمہاری بدکرداری نے
تمہارے اور تمہارے خُدا کے درمیان جُدائی کر دی ہے
اور تمہارے گناہوں نے اُسے تُم سے رُوپوش کیا
ایسا کہ وہ نہیں سُنتا۔
کیونکہ تمہارے ہاتھ خون سے اور تُمہاری اُنگلیاں بدکرداری سے آلودہ ہیں
تمہارے لب جھوٹ بولتے اور تمہاری زبان شرارت کی باتیں بکتی ہے
کوئی انصاف کی بات پیش نہیں کرتا کوئی سچائی سے حُجت نہیں کرتا
وہ بطالت پر توکل کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں
وہ زیان کاری سے بارور ہو کر بدکرداری کو جنم دیتے ہیں
وہ افعی (بڑے سانپ)کے انڈے سیتے اورمکڑی کا جالا تنتے ہیں
جو اُن کے انڈوں میں سے کُچھ کھائے مر جائے گا
جو اُن میں سے توڑا جائے اُس سے افعی نکلے گا
اُن کے جالے سے پوشاک نہیں بنے گی
وہ اپنی دستکاری سے ملبّس نہ ہوںگے
اُن کے اعمال بدکرداری کے ہیں اور ظُلم کا کام اُن کے ہاتھوں میں ہے
اُن کے پاﺅں بدی کی طرف دوڑتے ہیں
اور وہ بے گناہ کا خون بہانے کے لئے جلدی کرتے ہیں
اُن کے خیالات بدکرداری کے ہیں، تباہی اور ہلاکت اُن کی راہوں میں ہے
وہ سلامتی کا رستہ نہیں جانتے اور اُن کی روش میں انصاف نہیں“۔(یسعیاہ 59: 2-8)