گناہ نے انسانی زندگی کو دو طرح سے متاثر کیا ۔ ایک طرف تو وہ سزا کا مستحق ٹھہرا اور دوسری جانب اُس کی فطرت میںایک بگاڑ پیدا ہوگیا۔ اُس کی فطرت گناہ آلودہ ہونے کے باعث اُس کے باطن میں گناہ کی جانب ایک انجان سا رُجحان اور کشش پیدا ہو گئی۔جس کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی ہر انسان گناہ کی جانب مائل رہتا ہے۔اِسی لئے حضرت سلیمان فرماتے ہیںکہ” بنی آدم کا دل اُن میں بدی پر بہ شدت مائل ہے“(واعظ11:8)۔
پھر آپ مزید فرماتے ہیں. ”ہاں بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھرا ہے اور جب تک وہ جیتے ہیں حماقت اُن کے دل میں رہتی ہے“(واعظ 3:9)۔
چنانچہ جیسے کھاری چشمہ سے کھاری اور میٹھے چشمہ سے میٹھا پانی نکلتا ہے اسی طرح گُناہ آلودہ فطرت کے حامل انسان کا رجحان بدی کی جانب ہی ہوتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس سے گناہ آلودہ افعال و اعمال سرزد ہوتے چلے جاتے ہیں۔اور یہ سلسلہ ہے کہ تھمنے کانام نہیں لیتا۔ دُنیا کے تمام ادارے گناہ کی اس طاقت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔