المسیح نے اپنی ساری خدمت کے دوران انسان اور خُدا اورپھرانسانوں کے باہمی تعلقات کی بحالی پر زور دیا۔
آئیے دیکھیں کہ المسیح نے کس طرح ایک جانب انسان اور خُدا کے درمیان صلح کروانے اور پھر دوسری طرف انسانوں کے آپس کے تعلقات کی بحالی کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔اور یہ کہ کس طرح آپ پوری انسانیت
کے لئے امن و سلامتی کی برکت ثابت ہوئے۔
اِنسان اور خُدا کے تعلقات کی بحالی
اِس مقصد کے لئے المسیح نے خُدا تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے ایک ایسے پہلو کو اُجاگر کیا جس کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔وہ یہ کہ خُدا محبت ہے اور وہ انسان کو اُس کے گناہ، نافرمانی اور ہٹ دھرمی کے باوجود ایک شفیق باپ کی مانند پیار کرتا ہے۔ اِس تعلق سے آپ فرماتے ہیں:
”وہ(خُدا) اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوںپر چمکاتا ہے ۔ اور راستبازوں اور ناراستوں دونوںپر مینہ برساتا ہے“(متی45:5)۔
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں:”وہ(خُدا) ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے“(لوقا35:6)۔
پھر مسرف بیٹے کی تمثیل کے وسیلہ سے آپ نے انسان کو یہ سکھانے کی کوشش کی کہ خُدا ایک شفیق باپ کی طرح انسان کوپیار کرتا ہے وہ جب بھی توبہ کر کے اُس کی جانب واپس آتا ہے تو وہ اپنے بازو کھول کر اُسے اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ یہ تمثیل کُچھ اس طرح ہے:
کسی دولت مند شخص کے دو بیٹے تھے ۔اُن میں سے چھوٹے نے باپ سے اپنا حصہ طلب کیا اور پھر پردیس جا کر اپنا سارا مال اسباب بدچلنی اور عیاشی میں اُڑا دیا۔جب اُس کے پاس کُچھ نہ رہا تو نوبت فاقوں تک آگئی۔چنانچہ اُس نے محنت مزدوری شروع کر دی ۔ ایک دن اُسے احساس ہو ا کہ اُس کے باپ کے نوکر بھی اُس سے کہیں اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ چنانچہ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے باپ کے پاس جاکر اُس سے درخواست کرے گا کہ وہ اُسے معاف کر دے اور اُسے اپنے نوکروں میں ہی رکھ لے۔
لیکن جب وہ گھر آیا تو اُس کے باپ نے اُسے کھُلے دل سے معاف کر کے اُسے پھر بیٹے کے طور پر قبول کر لیا۔ اور اُس کے واپس آنے کی خوشی میں ضیافت کا انتظام کیا۔ اور جب اُس کے بڑے بھائی نے اِس پر ا عتراض کیا تو اُس سے کہا
”لیکن خوشی منانا اور شادمان ہونا مناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا اَب زندہ ہوا ۔ کھویا ہوا تھا اَب ملا ہے“(لوقا32:15)۔
پھر ایک اَور موقع پر آپ نے فرمایا کہ ” ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث خُدا کے فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے“(لوقا10:15)۔
اِن ساری باتوں سے آپ نے سکھایا کہ انسان کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ وہ اپنی پوری طاقت سے خُدا کو پیار کرے۔ متی35:22۔40 کے مطابق جب ایک عالمِ شرع نے آپ سے پوچھا کہ توریت میں کون سا حکم بڑا ہے ؟
تو آپ نے اُس سے فرمایا کہ ”خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔´ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے اور دوسرا اِس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ ۔´انہی دونوں حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے “۔