الٰہی محبت کا سبب

Mark Waseem

خُدا اِنسان سے اس قدر محبت اور پیار کیوں کرتا ہے؟ اس کا جواب ہمیںاُن حقائق پر غور کرنے سے حاصل ہو گا جو ہم اِنسان کی تخلیق کے بیان میںمشاہدہ کرسکتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ خدا نے انسان میں کون سی ایسی خوبیاں رکھی ہیں جن کی بنیاد پر وہ انسان کو دیگر تمام مخلوقات سے بڑھ کر پیار کرتا ہے۔اِس حوالہ سے دو باتیں نہایت ہی قابلِ غور ہیں۔

الف۔انسان خُدا کی شبیہ پر
پہلی بات جو انسان کو تمام مخلوقات سے منفرد اور خُدا کی نظر میں نہایت قابلِ قدر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو خُدا نے اپنی شبیہ اوراپنی صورت پر خلق کیا ۔اِس کا بیان توریت شریف (پیدایش26:1۔27) میں یوں کیا گیاہے ، ” پھر خُدا نے کہا ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبییہ کی مانند بنائیں…اور خُدانے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیاخُدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا ‘نرو ناری اُن کو پیدا کیا”۔ یہاں خُدا کی شبییہ و صورت سے مُراد جسمانی شبیہہ وصورت نہیں کیونکہ خُدا ہر طرح کے جسمانی خصائص سے بالا تر ایک پاک روح ہے۔یہاں خُدا کی شبیہ اور صورت سے مُراد الٰہی صفات یعنی پاکیزگی ، محبت، برداشت،مہربانی،رحم اوربھلائی ہیں۔ چنانچہ خُدا نے انسان کو اس اندازمیں خلق کیا ہے کہ وہ اُس کی عطا کردہ صفات کو اپنی زندگی سے منعکس کرے۔ چنانچہ خُدا کی شبیہہ پر خلق ہونے کی بنا پر سبھی انسان خُدا تعالیٰ کی نظر میں برابر اور قابل ِ احترام ہیں۔ جب بھی کوئی شخص کسی انسان کی تذلیل کرتا ہے تو حقیقت میں خُدا کی شبیہ کی بے حُرمتی کرتا ہے جو خُدا کی توہین کے مترادف ہے ۔ یہی وہ بات ہے جوہر اِنسان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ دوسرے اِنسانوں کو اپنی مانند جانتے ہوئے اُن کا احترام کرے۔

ب۔اِنسان میں خُدا کا دم
یہ خُدا تعالیٰ کی محبت ہی ہے جو انسان کو خُدا کی نظر میں قابلِ قدر اور قابلِ احترام بناتی ہے۔تاہم یہاں ایک اَورسوال پیدا ہوتا ہے کہ خُدا کی اس محبت کی وسعت کیا ہے؟ کیا اُس کی محبت کسی مخصوص قوم یا گروہ تک ہی محدود ہے یا سب انسانوں کے لئے میسر ہے؟ کُچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خُدا صرف خاص قوم اور مذہب ہی سے پیار کرتا ہے اور باقی لوگوں سے اُسے عداوت اور نفرت ہے۔ یہودی قوم اس حوالہ سے خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ۔ پادری برکت اللہ اُن کے بارے یوں رقمطراز ہیں، ” یہود اس بات پر نازاں تھے کہ وہ خُدا کی برگزیدہ قوم ہیں لہٰذا تمام غیر یہود کو جہنمی اور گمراہ شمار کر کے اُن سے اس قدر پرہیز کرتے تھے کہ اُن کی چھت تلے جانا بھی اُن کے خیال میںناپاکی کاموجب تھا۔یہود سامریوں سے ایسا کینہ اورعداوت رکھتے تھے کہ اُن کے ساتھ میل جول رکھنا خنزیر کے گوشت کی طرح حرام خیال کرتے تھے”۔ای بُک ‘مسیحیت کی عالمگیری صفحہ نمبر26-27- المسیح کے نزدیک محبت کا یہ رشتہ ہر طرح کی مذہبی، معاشرتی اور سماجی گروہ بندی سے بالا تر ہے۔ آپ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ خُدا کی محبت عالمگیرہے۔آپ نے سکھایا کہ خُدا تعالیٰ نیکوں پر بھی رحمت کرتا ہے اور بدوں کو بھی اپنی شفقت سے محروم نہیں کرتا ۔وہ مومنوں سے بھی پیار کر تا ہے اور کافروں کو اپنی برکات سے فیض یاب کرتا ہے۔یوں وہ نیک وبد کے امتیاز اور مومن و کافر کے فرق سے بالا تر ہو کر سب انسانوں کے ساتھ صرف انسانیت کی بنیاد پر اپنا تعلق اور رشتہ قائم رکھتا ہے۔اور سب اِنسانوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہر طرح کے مذہبی اور سماجی تعصب سے بالا تر ہو کر کام کریں تاکہ دُنیا میں انسانیت کا بول بالا ہو۔ المسیح خُدا تعالیٰ کے بارے فرماتے ہیں، وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکو دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے”(متی45:5)۔ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں- “وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے”(لوقا 35:6)۔ بلاشبہ خُدا کی محبت ہر طرح کے امتیاز سے بالا تر ہے’وہ ہر انسان سے پیار کرتا ہے ۔ وہ مومن سے بھی پیار کرتا ہے اور کافر کو بھی اپنی محبت سے محروم نہیں رکھتا۔چنانچہ اسی حقیقت کو بنیاد بنا کر المسیح اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ہیں- ” کیونکہ وہ( خُداتعالیٰ) ناشکروں اور بدوں پر مہربان ہیں’ ”(اس لئے) جیسا تمہارا (خُدا)باپ رحیم ہے تُم بھی رحمدل ہو”(لوقا35:6۔36)۔ ” …پھر ایک اور موقع پر فرماتے ہیں، “اگر تُم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھوتو تمہارے لئے کیا اجر ہے۔کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے۔ اوراگر تُم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے ۔پس چاہئے کہ تُم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے”(متی5: 46۔48)۔