خُدا اِنسان سے اس قدر محبت اور پیار کیوں کرتا ہے؟ اس کا جواب ہمیںاُن حقائق پر غور کرنے سے حاصل ہو گا جو ہم اِنسان کی تخلیق کے بیان میں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ خدا نے انسان میں کون سی ایسی خوبیاں رکھی ہیں جن کی بنیاد پر وہ انسان کو دیگر تمام مخلوقات سے بڑھ کر پیار کرتا ہے۔اِس حوالہ سے دو باتیں نہایت ہی قابلِ غور ہیں۔
الف۔ انسان خُدا کی شبیہ پر
پہلی بات جو انسان کو تمام مخلوقات سے منفرد اور خُدا کی نظر میں نہایت قابلِ قدر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو خُدا نے اپنی شبیہ اوراپنی صورت پر خلق کیا ۔اِس کا بیان توریت شریف (پیدایش26:1۔27) میں یوں کیا گیاہے ، ” پھر خُدا نے کہا ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبییہ کی مانند بنائیں…اور خُدانے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیاخُدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا ‘نرو ناری اُن کو پیدا کیا”۔ یہاں خُدا کی شبییہ و صورت سے مُراد جسمانی شبیہہ وصورت نہیں کیونکہ خُدا ہر طرح کے جسمانی خصائص سے بالا تر ایک پاک روح ہے۔یہاں خُدا کی شبیہ اور صورت سے مُراد الٰہی صفات یعنی پاکیزگی ، محبت، برداشت،مہربانی،رحم اوربھلائی ہیں۔ چنانچہ خُدا نے انسان کو اس اندازمیں خلق کیا ہے کہ وہ اُس کی عطا کردہ صفات کو اپنی زندگی سے منعکس کرے۔ چنانچہ خُدا کی شبیہہ پر خلق ہونے کی بنا پر سبھی انسان خُدا تعالیٰ کی نظر میں برابر اور قابل ِ احترام ہیں۔ جب بھی کوئی شخص کسی انسان کی تذلیل کرتا ہے تو حقیقت میں خُدا کی شبیہ کی بے حُرمتی کرتا ہے جو خُدا کی توہین کے مترادف ہے ۔ یہی وہ بات ہے جوہر اِنسان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ دوسرے اِنسانوں کو اپنی مانند جانتے ہوئے اُن کا احترام کرے۔
ب۔ اِنسان میں خُدا کا دم
اِس حوالہ سے دوسری اہم بات جو انسان کی قدرو قیمت کو بڑھادیتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان خُدا کے دم کے باعث زندہ ہے ۔ توریت شریف یوں بیان کرتی ہے، “اور خُداوند خُدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکاتو انسان جیتی جان ہوا” (پیدائش7:2)۔ جہاں انسان خُدا کی شبیہ اور صورت پر خلق ہوا وہاں وہ اُس کے دم کا بھی حامل ہے۔یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ خُدا یہ دم اپنی مرضی سے عطا کرتا ہے اور جب چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے۔جب تک یہ دم انسان میں رہتا ہے وہ جیتی جان رہتا ہے لیکن جب خُدا یہ دم واپس لے لیتا ہے تو انسان زندگی سے محروم ہو جاتا ہے۔اور اس دم کے عطاکرنے اور واپس لینے کا اختیار صرف خُدا کو ہی ہے ۔ اس حوالہ سے حضرت ایوب نبی یوں فرماتے ہیں،” اُسی کے ہاتھ میں ہر جاندار کی جان اور کُل بنی آدم کا دم ہے”(ایوب 10:12).جب بھی کوئی انسان دوسرے انسان کی جان لیتا ہے تو وہ ایک جانب خُدا کی شبیہ کی تذلیل کرکے خُدا کی توہین کرتا ہے تو دوسری طرف وہ خُدا کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ یوں وہ خُدا کے اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے شرک کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔چنانچہ خُدا کسی کو بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کی جان لینے کے لئے اُس کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے ۔ چنانچہ خُدا تعالی کے اپنے دَم کی بدولت انسان باقی تمام مخلوقات سے منفرد اور قابل ِ قدر ہے ۔چونکہ خُدا کا عطا کیا ہوازندگی کا دم ہر انسان کے پاس ہے اس لئے ہر انسان اسی طرح اہم اور قابلِ قدر ہے جس طرح باقی سب انسان ہیں۔ اس لئے یہ حقیقت سب انسانوں کو مساوات کے بندھ میں باندھ کرہر ایک سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کا اپنی مانند احترام کریں۔