پیار اور محبت ہی واحد طاقت ہے جو مختلف معاشروں اور مذاہب کے لوگوں کواِنسانی بھائی چارہ کے رشتے میں باندھ کر رکھ سکتی ہے۔ تاہم اس پیار اور محبت کو بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان معاشرتی اور مذہبی تعصب کے خول سے باہر نکلے اور نفرت اور جُدائی کی دیواروں کومسمار کر کے سب انسانوں کو اپنا بھائی تصور کرے۔
المسیح ایسے اُستاد ہیں جنہوں نے اِنسانوں کے درمیان پائے جانے تعصب کے زہر کو ختم کرنے کے لئے عالمگیر محبت کا درس دیااور لوگوں کو سکھایا کہ وہ ہر طرح کی سماجی اور مذہبی امتیاز سے بالا تر ہو کر انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے پیار کریں۔
آپ نے فرمایا، ”…جیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریںتُم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو۔اگر تُم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا کیا احسان ہے ؟ کیونکہ گناہگار بھی اپنے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے ہیںاور اگر تُم اُن ہی کا بھلا کرو جو تمہارا بھلا کریں تو تمہارا کیا احسان ہے کیونکہ گناہگار بھی ایسا ہی کرتے ہیںاور اگر تُم اُن ہی کو قرض دو جن سے وصول ہونے کی اُمیدرکھتے ہو تو تمہارا کیا احسان ہے گناہگار بھی گناہگاروں کو قرض دیتے ہیں تاکہ پور ا وصول کرلیںمگر تُم اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرواور بغیر نااُمید ہوئے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہوگا اور تُم خُدا تعالیٰ کے بیٹے ٹھہرو گے کیونکہ وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے” ۔(لوقا31:6۔35).
پھر آپ مزید فرماتے ہیں! ”میرا حکم یہ ہے کہ جیسے میں نے تُم سے محبّت رکھی تُم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو” (یوحنّا12:15)
چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ المسیح چاہتے ہیں کہ اُس کے پیروکار آپس میں بھی ایک دوسرے سے پیار کریںاور جو اُن کے ہم ایمان اور ہم عقیدہ نہیں ہیں اُنہیں بھی دائرہ اخوت سے خارج نہ کریں بلکہ مذہبی حدود سے بالا تر ہو کر ہر ایک سے پیار کریں۔