الف۔پرُ اَمن معاشرہ کا قیام

Mark Waseem

اخوتِ اِنسانی کے فروغ کا سب سے پہلا مقصد ایک پرُ اَمن معاشرہ کا قیام ہے۔اِس لئے کہ اِنسان کی سب سے بڑی ضرورت دُنیا میں اَمن و سلامتی کا قیام ہے۔جب تک کسی خاندان، معاشرہ اور ملک میں اَمن اور سلامتی نہ ہو وہ ترقی نہیں کر سکتے ۔ بدقسمتی سے اِس وقت ہماری موجودہ دُنیا اِس نعمت سے محروم ہے ۔ ہر طرف بے یقینی اور مایوسی کے بادل چھائے ہوئے۔ لالچ، ہوس اور خود غرصی کے باعث اِنسان اپنے ہی ہم جنس اِنسانوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہو کر رہ گیاہے۔ہرطرف لڑائی اور جنگ و جدل کے خونخوار پنچھی لوگوں کے سروں پر منڈلارہے ہیں۔ اِس افراتفری کے دور میں اِنسان کی سب سے بڑی ضرورت اور خواہش ایک پُرامن معاشرہ کا قیام ہے۔ چنانچہ جب تک ہر انسان کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں دُنیا میں امن و سلامتی کا قیام مشکل بلکہ ناممکن ہے۔خُدا تعالیٰ چاہتے ہیں کہ سب انسان مل جُل کر امن و محبت سے رہیں۔اِس حوالہ سے حضرت دائود یوں فرماتے ہیں، ” دیکھو کیسی اچھی اور خوشی کی بات ہے کہ بھائی باہم مل کر رہیں”(زبور1:133)۔ پولُس رسول ایمانداروں سے التماس کرتے ہیں، ”پس میں سب سے پہلے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ منا جاتیں اور دعائیں اور التجائیں اور شکر گزاریاں سب آدمیوں کے لئے کی جائیں بادشاہوں اور سب بڑے مرتبہ والوں کے واسطے اس لئے ہم کمال دینداری اور سنجیدگی سے امن و آرام کے ساتھ زندگی گزاریں”(1۔تمُتھیس1:2۔2)۔ اِسی طرح آپ مزید فرماتے ہیں، ”پس ہم اُن باتوں کے طالب رہیں جن سے میل ملاپ اور باہمی ترقی ہو”(رومیوں19:14)۔ پھر آپ یہ بھی فرماتے ہیں، ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیںاُن کی تدبیر کرو۔جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کیساتھ میل ملاپ رکھو” (رومیوں17:12۔18).