فروغ احترام انسانی کا سب سے پہلا اور اہم مقصد”اِنسانیت کی بقا اور تحفظ” کا یقینی بنانا ہے۔ خُدا تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان بڑھے ‘پھلے اور قائم و دائم رہے ۔کلامِ الٰہی سے ہم سیکھتے ہیں کہ خُدا نے انسان کی تخلیق سے قبل ہی اُس کی بقا کے لئے وہ تمام اشیا کثرت سے پیدا فرمائیں جو انسانی زندگی کو قائم رکھنے کا وسیلہ ہیں۔ پھران تمام اشیا کی افزائش کے لئے ایسا نظام قائم کر دیا کہ وہ کبھی ختم نہ ہوں۔ توریت شریف میں یوں مرقوم ہے، “اور خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ‘ خُدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا ۔نرو ناری اُن کو پیدا کیا۔اور خُدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورو محکوم کرو۔ اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔اور خُدا نے کہا کہ دیکھو میں تمام رویِ زمین کی کُل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اُس کا بیج دار پھل ہو تُم کو دیتا ہوں یہ تمہارے کھانے کوہوں”(پیدایش27:1۔29)۔ چنانچہ اِن باتوں پر غور کرنے سے ہم جان سکتے ہیں کہ خُدا انسان سے کس قدر پیار کرتا ہے، اِس آیتِ مقدسہ میں ہم دو خاص باتوں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں جس کی بنا پر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ خُدا تعالی انسان کی بقا کے لئے کس قدر سنجیدہ اور فکر مند ہیں۔ اوّل:ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے انسان کو نر و ناری پیدا کیا۔ اور پھر یہ بھی فرمایا کہ ” پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورو محکوم کرو” اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا تعالیٰ کاانسان کے بارے ارادہ اور مقصد یہ ہے کہ انسان کی نسل اس زمین پر قائم و دائم رہے۔ دوم: اسی آیتِ مقدسہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا نے انسانی زندگی کے قیام کے لئے خوراک کا نظام قائم کیا تاکہ انسان اس کے وسیلہ زمین پر اپنی زندگی کو قائم رکھ سکے۔ پھراِسی طرح حضرت نوح اور اُن بیٹوں کے ساتھ کئے گئے عہدِنو میں واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ خُدا ہر صورت میں انسانیت کا تحفظ کرتا ہے۔اور جو کسی انسان کو تباہ کرتا ہے خُدا اُس کو سزا دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔خُدا تعالیٰ حضرت نوح سے یوں ہم کلام ہوتے ہیں، “میں تمہارے خون کا بدلہ ضرور لوں گا۔ہر جانور سے اُس کا بدلہ لوں گا ۔آدمی کی جان کا بدلہ آدمی سے اور اُس کے بھائی بند سے لوں گا۔جو آدمی کا خون کرے اُس کا خون آدمی سے ہوگاکیونکہ خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر بنایاہے”(پیدائش5:9۔6- اِن ساری باتوں سے ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ خُدا تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان اس زمین پر بڑھے پھلے اور قائم و دائم رہے۔اور جب خُدا تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان اس دُنیا اور زمین پر قیام پذیر رہے تو لازم ہے کہ انسان بھی دوسرے انسانوں کی زندگی کا احترام کرے۔اس لئے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خواہ مخواہ کسی سے زندہ رہنے کا حق چھین لے۔آج بھی اِنسانی زندگی کو قائم رکھنے کا سامان اِس دُنیا میں وافر مقدار میں موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا اب بھی اِنسان کو اس دُنیا میں آباد اور قائم و دائم دیکھنا چاہتا ہے۔چنانچہ انسانی تحفظ اور بقا کا تقاضا ہے کہ ہر کوئی دوسرے انسانوں کا احترام کرے۔