حضرت نوح کے بعد تقریباً دسویں پشت میں ابرام نامی ایک شخص پیدا ہوا جسے بعد میں خُدا تعالیٰ نے ابرہام (ابراہیم) کا نام دیا۔ آپ اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ کسدیوں کے اُور موجودہ عراق کے شمالی علاقہ میں آباد تھے کہ ایک روز خُدا تعالیٰ آپ سے یوں مخاطب ہوئے، ” تُواپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جا جو مَیں تجھے دکھاﺅں گا اور مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناﺅں گا اور برکت دُوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔ سو تُو باعث ِبرکت ہو! جو تجھے مبارک کہیں اُن کومَیں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اُس پرمَیں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے“ (پیدایش 12: 1-3)ِ ۔ پھرایک اور موقع پر خُدا تعالیٰ نے مزید فرمایا،”تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی “۔ (پیدایش 22: 18) جب آپ الٰہی ہدایت کے مطابق اپنے رشتہ داروں اور ناتے داروں کو چھوڑ کر ملکِ کنعان میں آئے تو خُدا تعالیٰ نے فرمایا‘”۔ ۔ ۔ یہی مُلک میں تیری نسل کو دونگا۔ ۔ ۔“ (پیدایش 12: 7) ہم غور کر سکتے ہیں کہ خُدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے جو وعدہ کیا اس کے دو پہلو ہیں۔
الف۔ خُدا تعالی حضرت ابراہیم کی نسل کو ایک بڑی قوم بنا کر مُلک کنعان میں بسانا چاہتے تھے۔
ب۔ خُدا تعالیٰ ابراہیم کی نسل کے وسیلہ سے دُنیا کی ساری اقوام کو برکت دینا چاہتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ خُدا تعالیٰ ابراہیم کی کون سی نسل کے وسیلہ اقوامِ عالم کو برکت دینا چاہتے تھے۔
چنانچہ آئندہ اسباق میں ہم اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے۔