کچھ لوگ نیک اعمال کو ذریعہِ نجات سمجھتے ہیں لکین کلامِ مقدس کے مطابق نیک اعمال لازم اور ایمان کا پھل ہیں۔ تاہم مندرجہ ذیل کلامِ مقدس کی وجوہات کی بنا بر کوئی بھی شخص اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے گناہوں سے نجات نہیں پاسکتا۔
اول۔ خدا تعالیٰ کا تقاضا ہے کہ انسان ادھورا نہیں بلکہ کامل طور پر نیک ہو کیونکہ وہ خود کامل طور پر نیک ہے۔
یوحنا رسول فرماتے ہیں۔
اُس سے سُن کر جو پَیغام ہم تُمہیں دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ خُدا نُور ہے اور اُس میں ذرا بھی تارِیکی نہِیں۔
(1- یُوحنّا1 باب 5 آیت)
جہاں تک انسان کا تعلق ہے۔
حضرت سلیمان اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔
کیونکہ زمین پر کوئی ایسا راست باز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے۔
(واعظ 7 باب 20 آیت)۔
چونکہ کوئی انسان بھی کامل طور پر نیک ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا اس لئے یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے نیک اعمال سے نجات پاسکے۔
دوم۔ چونکہ انسان فطری طور پر گناہ گار ہے۔ اُس کی فطرت یعنی باطن گناہ آلودہ ہے۔ اس لئے اُس سے کامل نیکی کا صادر ہونا ہی ناممکن ہے۔
حضرت یسعیاہ فرماتے ہیں۔
اور ہم سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راست بازی ناپاک لباس کی مانند ہے اور ہم سب پتے کی طرح کملا جاتے ہیں اور ہماری بدکرداری آندھی کی مانند ہم کو اُڑلے جاتی ہے۔
(یسعیاہ 64 باب 6 آیت)
سوم۔ زمین پر کوئی بھی ایسی عدالت نہیں جو کسی مجرم کو اس کے نیک اعمال کی وجہ سے معاف کردے۔ اگر کوئی دنیاوی عدالت ڈاکو یا قاتل کو اس بنا پر معاف نہیں کرسکتی کہ اس نے ماضی میں بہت اچھے کام کئے۔ تاہم ہم خدا تعالیٰ سے یہ کس طرح توقع کرسکتے ہیں۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔