اخوتِِِ اِنسانی کی بنیاد

Mark Waseem

”اخوت”عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے، بھائی چارہ (Brother- hood) ‘ برادری ‘میل میلاپ اور رفاقت ِباہمی۔ یوں تو اخوت کا تصورہر معاشرہ اور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے ۔لیکن افسوس کہ اکثر لوگ اپنے ہم عقیدہ لوگوں کوتو اپنے بھائی سمجھتے ہیں لیکن غیر مذاہب کے افراد کو دشمن اور حریف سمجھتے ہیں۔یہودی صرف یہودیوں کو اورہندوصرف ہندوئوں کو اپنے بھائی بند تصور کرتے ہیں ۔ اِسی طرح دیگر مذاہب کے لوگ بھی صرف اپنے ہم مذہب افراد کو ہی اپنے بھائی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہم مذہب لوگوں میں اخوت کا جذبہ جتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اُسی قد ر اُن کا تعصب دیگر مذاہب کے خلاف زیادہ ہوتا ہے۔المسیح کی آمد سے قبل یونانی دیگر یونانیوں کو تو اپنا بھائی سمجھتے تھے جب کہ غیر یونانیوں کو وحشی کا خطاب دیتے ۔اسی طرح رومی یہودیوں سے نفرت کرتے تھے جب کہ یہودی اپنے علاوہ باقی سب غیر یہودیوں کو کافر اور جہنمی سمجھتے تھے۔ المسیح نے انسانوں کے درمیان پائی جانے والی مذہبی اور معاشرتی درجہ بندیوں کی دیواروں کو مسمار کر کے لوگوں کو سکھایا کہ سبھی انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔آپ نے سکھایا کہ اخوت اور بھائی چارہ کوکسی مخصوص مذہب یا معاشرتی گروہ تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ خُدا تعالیٰ کی عالمگیر محبت کا تقاضہ ہے کہ سبھی انسان ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھیں۔ چنانچہ ہم اس سبق میں سیکھیں گے کہ المسیح نے ”اخوتِ انسانی ” کے بارے انسانیت کو کیا درس دیا اور کیوں اس بات پر زور دیا کہ سب انسانوں کو ایک دوسرے کے بھائی سمجھنا چاہئے؟یعنی کہ سب انسانوں کا ایک برادری اور بھائی بھائی ہونے کا سبب کیا ہے؟